Friday, April 26, 2024 | 1445 شوال 17
Feature

جب ایک ہندو جوڑےنے ہاتھ جوڑکر سرتسلیم خم کردیا

دوران سفر نماز

جب ایک ہندو جوڑےنے ہاتھ جوڑکر سرتسلیم خم کردیا
 
از: طہ جون پوری
2/ جنوری 2023
 
جب  سے دائیں بازو کی متشدد جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی، مرکز میں حکومت آئی ہے، تب سے پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے شعلے بھڑکائے جارہے ہیں اور آئے دن ایسے وقت  مشاہدے میں آرہے ہیں، جن سے فطرتاً کسرِ ہمتی اعصاب پر سوار ہوجاتی ہے، لیکن یہ اس دینِ متین کی خوبی ہے اور  ہادئی عالمﷺ کے بتلائے ہوئے راستے کا کمال ہے، کہ اس کی صفاتِ  حسنہ  کو جان کر اور دیکھ کر، اچھے اچھوں کے دل موم سے بھی زیادہ نرم ہوجاتے ہیں۔
چناں چہ ابھی چند روز قبل، شہر عزیز مالیگاؤں  صوبہ مہاراشٹر جانا ہوا۔  ٹرین اپنے وقت پر،  منزل مقصود کے لیے روانہ ہوئی۔  تھوڑی  مسافت طے کرنے کے بعد، ایک اسٹیشن پر رکی، جہاں دوسرے مسافرین بھی سوار ہوگئے۔ انھیں مسافرین میں، دو عمر دراز غیر مسلم (میاں بیوی) ہمارے اپنے کمپارٹمنٹ میں، اپنی سیٹ سائڈ لوور( کنارے کی نیچے والی) پر آگئے۔ اور سامان رکھ کر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر کے بعد، ہم نے سارے حجابات کو چاق کردیا اور ان سے پوچھ بیٹھے، کہ سر اگر آپ کو آرام کی ضرورت ہے، تو آپ ہماری اپنی سیٹ پر آجائیں۔ ہماری  یہ یہ سیٹیں ہیں۔ اس بات کو سن کر، ان دونوں نے شکریہ ادا کیا۔ لیکن ہم نے جواباً کہا: شکریہ کی کوئی بات نہیں۔ آپ تو عمر میں ہمارے والدین کی طرح ہیں، جس پر وہ حد درجے بچھ گئے اور پھر تھوڑی گفتگو ہوئی اور ہم اپنے کام میں لگ گئے۔
ادھر وقت گذرنے کے ساتھ گھڑیوں نے، رب کے حضور، حاضری کی گھنٹی بجادی۔ سورج بادلوں کی اوٹ میں دور کہیں جاکر چھپ گیا اور یوں پھر غروب شمس ہوگیا۔ ہم نے ارادہ کیا کہ یہیں اندر کہیں نماز ادا کرلی جائے، لیکن حالات کی مسموم فضاؤں نے سوچنے پر مجبور کردیا، کہ نفرت کا شکار ہم بھی نہ ہوجائیں۔ ان سب کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہم نے ان دونوں  عمر دراز غیر مسلم  جوڑے سے کہا، کہ ذرا نماز پڑھنا ہے۔ یہ جملہ زبان سے کیا، نکلا، کہ ان دونوں نے سرِتسلیم خم کردیا اور ہاتھ جوڑ کر کہا، کہ بالکل آپ پڑھیں۔
یہ کوئی کرامت نہیں، بلکہ صرف اسلام کی خوبی ہے، کہ اگر اس کی تعلیمات پر عمل کیا جائے، تو آج بھی لاکھوں دل متاثر ہوسکتے ہیں۔ کیوں کہ بعض بندگانِ خدا نے اس سے پہلے بھی اپنے تجربے ذکر کیے ہیں، کہ دورانِ سفر کس طرح نماز کے لیے سہولت مل گئی اور کس طرح بردرانِ وطن نے خود موقع فراہم کیا ہے۔
آج ضرورت اسی بات کی ہے، کہ ہم  گفتارکا غازی بننے کے بجائیں، کردار کا غازی بنیں۔  کیوں کہ یہ سب سے سہل، آسان اور مؤثر طریقہ ہے، کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے. جبر وزور کے بجائے حسنِ اخلاق کا پیکر مجسم بن جایا جائے۔ کیوں کہ دیکھا جائے تو  ہرموڑ پر، مذہب اسلام نے اپنے پیروکار وں کو کامل و اکمل طریقے سے رہنمائی کی ہے. چناں چہ اسلام نے اس کی تعلیم دی ہے، کہ  ہم مجلس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے. اب وہ مجلس چاہے سفر طویل  یا قصیر کی رفاقت کی شکل میں ہو، یا کسی اور شکل میں ہو، بہر صورت ہم مجلس اور پڑوسی کا خیال رکھنا چاہیے۔ جس کے نتائج ان شاءاللہ مثبت ہی نکلیں گے۔ إن الله لا یضیع اجر المحسنین. ویسے بھی:
نرم الفاظ بھلی باتیں مہذب لہجے 
بے کیف سہی،  اپنا اثر رکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دامے درمےقدمے سخنے ، ہر طرح سے اسلام کی خوبیوں کا تعارف کرانے والا بنائے اور خود بھی اس پر عامل بنائے۔
آمین ثم آمین
Note: مضمون نگار کے آراء سے ادارے کامتفق ہونا ضرور نہیں ہے