Thursday, April 25, 2024 | 1445 شوال 16
Islam

اپنے وقت کا تنہا سپر پاور حضرت عمر فاروق (رض) کا کورٹ میں روتے ہوئے اپنا جرم تسلیم کرنا

اپنے وقت کا تنہا سپر پاور حضرت عمر فاروق (رض) کا کورٹ میں روتے ہوئے اپنا جرم تسلیم کرنا

احادیث سے ماخوذ

واقعہ یوں ہوا کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا گھر مسجد نبوی کے ساتھ تھا اور اس مکان کا پرنالہ مسجد کی طرف تھا۔ جب بارش ہوتی تو پرنالہ سے پانی گرتا جس کے چھینٹے نمازیوں پر پڑتے۔ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نمازیوں پر چھینٹے پڑتے دیکھا تو پرنالے کواکھاڑ پھینکا۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ جب آئے تو دیکھا کہ ان کے مکان کا پرنالہ اتار دیا گیا ہے۔ پوچھا یہ کس نے اتارا؟ جواب ملا امیر المومنین نے نمازیوں پر چھینٹے پڑتے دیکھا تو اسے اتار دیا۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے قاضی کے سامنے مقدمہ دائر کر دیا۔

 امیر المومنین حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ، قاضی وقت حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش ہوئے تو جج صاحب لوگوں کے مقدمات سن رہے ہیں اور سیدنا عمر فاروق عدالت کے باہر انتظار کر رہے ہیں۔ کافی انتظار کے بعد جب سیدنا عمر (رض) عدالت کے روبرو پیش ہوئے تو بات کرنے لگے، مگر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ پہلے مدعی کا حق ہے، کہ وہ اپنا دعوی پیش کرے۔

 یہ حضرت عمر(رض) کے دور کے چیف جسٹس تھے جو اپنے بادشاہ، تمام مسلمانوں کے امیر اور دنیا کے سب سے  طاقتور حکمراں سے مخاطب تھے۔

حضرت عباس رضی اللہ عنہ دعوی پیش کرتے ہیں کہ میرے مکان کا پرنالہ شروع سے مسجد نبوی کی طرف تھا۔ زمانہ نبوی صل اللہ علیہ وسلم کے بعدسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں بھی یہی رہا،  لیکن عمر(رض) نے میرے مکان کا پرنالہ میری عدم موجودگی میں میری اجازت کے بغیر اتار دیا ہے۔ لہذا مجھے انصاف چاہیے۔  چیف جسٹس حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو کہتے ہیں آپ بے فکر رہیں، آپ کو انصاف ملےگا۔ قاضی صاحب نے سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے پوچھا آپ نے سیدنا عباس (رض) کے گھر کا پرنالہ کیوں اتارا؟

بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم کٹہرے میں کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ سیدنا عباس (رض) کے مکان کا پرنالہ مسجد نبوی کی طرف تھا۔ جب بارش ہوتی ہے پرنالے سے پانی بہتا ہے اور چھینٹے نمازیوں پر پڑتے ہیں جس سے نمازیوں کو پریشانی اور تکلیف ہوتی ہے اس لیے میں نے اسے اتار دیا۔

ابی بن کعب (رض) نے دیکھا کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کچھ کہنا چاہ رہے ہیں، پوچھا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟  پھر سیدنا عباس (رض) کہتے ہیں کہ جس جگہ میرا مکان ہے وہیں رسول کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چھڑی سے مجھے نشان لگا کر دیا اور میں نے اسی جگہ مکان بنایا، پھر جب پرنالہ نصب کرنے کا وقت آیا تو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کہا چچا جان میرے کندھے پر کھڑے ہو کر اس جگہ پرنالہ نصب کر دیں، میں نے نبی پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر کھڑا ہونے سے انکار کیا، مگر بھتیجے کے اصرار پر میں نےان کے کندھے پر کھڑا ہو کر یہاں پرنالہ نصب کیا، یہاں پرنالہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لگوایا تھا۔

 

قاضی صاحب حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے پوچھا اس کا کوئی گواہ ہے آپ کے پاس؟

 سیدنا عباس رضی اللہ عنہ جلدی سے باہر گئے اور کچھ انصار صحابہ کو لے کر آئے، انہوں نے گواہی دی کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سچ کہہ رہے ہیں۔ یہ سنتے ہی امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہوش اڑ گئے اور رونے لگے، آنسوؤں کی جھڑی لگ گئ، اپنے پیارے نبی ﷺ یاد آ گئے اور زمانہ نبوی ﷺ کا منظرنظروں میں گھوم گیا۔

عدالت میں سب کے سامنے یہ بائیس لاکھ مربع میل کا حاکم سر جھکائے کھڑا ہےجس کا نام سن کر قیصر و کسری کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جاتا تھا، وہ  سیدنا عباس (رض) سے کہتا ہے کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ پرنالہ رسول پاک ﷺ نے خود لگوایا ہے، مجھ سے غلطی ہوگئی ہے،آپ چلیے میرے ساتھ، جیسے رسول پاک ﷺ نے یہ پرنالہ لگوایا تھا ویسے ہی آپ لگائیں۔ چشم کائنات نے دیکھا کہ وقت کا حاکم دونوں ہاتھ مکان کی دیوار سے ٹکا کر کھڑا ہو گیا، بالکل اسی طرح جیسے رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے تھے،سیدنا حضرت عباس رضی اللہ عنہ امیر المومنین اور دنیا کے سب سے طاقتور بادشاہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر کھڑے ہوئے اور دوبارہ اسی جگہ پرنالہ لگا دیا ۔ وقت کے حاکم کا یہ سلوک دیکھ کر حضرت عباس (رض) نے اپنا مکان اسی وقت مسجد نبوی ﷺ کو وقف کر دیا۔  مسجد نبوی کے باب السلام سے داخل ہوں تو دائیں جانب دیوار میں چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آج بھی اس پرنالے کے مقام کی نشاندھی موجود ہے۔

لال دائرہ میں اس پرنالہ کی نشانی آج بھی موجود ہے.

(أخرجہ أحمد بن حنبل  في المسند، 1 / 210، الحديث رقم : 1790)

 

Note: