سیمانچل کی چند مردم ساز شخصیات کے سیاسی وسماجی کارنامے
عبدالغنی لبیب
وطن عزیز کا ریاست بہار ایک ترقی پذیر صوبہ ہے جو محدود وسائل ہونے کے باوجود ترقی کی شاہراہ پہ گامزن ہے اور اب ریاست ترقی یافتہ کے زمرہ میں شامل ہوا چاہتا ہے۔ تاریخی حوالہ سے یہ بات کہی جاتی ہےکہ پانچویں صدی عیسوی میں بہار میں ایک عالمی سطح کی یونیورسٹی نالندہ میں قائم تھا لہذا بہار کی تاریخی ، ثقافتی ، سیاسی اور تعلیمی ریکارڈ قابل رشک رہا ہے۔ مگر امتداد زمانہ کے باعث بہار کے ساتھ "پچھڑے ریاست" کا ٹیگ بھی لگا۔ پھر یہاں کے لعل وگہر نے زندگی کے تمام شعبہ میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے جو ریاست کے عظمت رفتہ کو بحال کرنے میں ممد و معاون ثابت ہورہی ہے۔
ریاست بہار کا شمال مشرقی اورحاشیائی خطہ سیمانچل جو محروم بھی ہے اور سیاسی طور پہ مارجینلائزڈ بھی ہے۔ لہذا سیمانچل کومقہورومجبور خطہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ سیمانچل کی محرومی کے خاتمہ کے لئے یہاں کے سپوت نے بیش بہا خدمات انجام دی ہیں جس سے اب دیر سے ہی صحیح رفتہ رفتہ یہاں کے خدوخال سرسبز شاداب نظر آنے لگے ہیں۔ سیمانچل کے سیکڑوں فرہاد وکوہکن ایسے ہیں جس نے نہ صرف علاقہ کا نام روشن کیا ہے بلکہ علمی، سیاسی، مذہبی اور تعلیمی میدان میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ جو اپنے وقت کے معتبر دستخط تھے۔ اور سیکڑوں عبقری شخصیات ہیں جن کا نام حرف زریں سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
مختلف شعبۂ حیات میں کارہائے نمایاں انجام دینے والی شخصیات کی فہرست طویل ہے جس کے اظہار کے لئے ایک دفتر درکار ہے، مگر اختصار کے ساتھ یہاں چند ایسے مؤقر شخصیات کا ذکر اور کام پیش کیا جارہا ہے جس نے سیمانچل کے لئے اپنا خون جگر صرف کیا ہے۔اور اس حاشیائی خطہ کو ملکی سطح پر بھرپور انداز میں متعارف کرایا ہے۔ اس میں سرفرفہرست قدرآور لیڈر سیمانچل کے گاندھی الحاج تسلیم الدین ہیں، جو ایک شیردل قائد تھے جنہوں نے دبے کچلوں کو جینے کا حوصلہ دیا ،جنہیں کشتیاں جلا کر آگے بڑھنے کا شوق تھا،جو عوام کے مسیحا تھے، جنہیں لوگ اپنے لئے حرزجاں رکھتے تھے ۔اور وہ یہاں کے عوام کو اپنے گھرکا فرد سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیمانچل کے کشن گنج سے لیکر پورنیہ تک مختلف انتخابی حلقہ سے رکن اسمبلی اور رکن پارلیمنٹ منتخب ہوتے رہے تھے۔
غلام ملک میں پیدا ہوئے آزاد دل و دماغ کے مالک سماجی سیاسی خوبیوں سے لیس سیمانچل کے قد آور مسلم لیڈرالحاج تسلیم الدین 17 ستمبر 2018 بروز اتوار کو چنئی کے اپولو اسپتال میں انتقال کرگئے۔ 74 سالہ مضبوط اعصاب کا مالک تسلیم الدین نے سماجی ہم آہنگی اور تانے بانے بننے میں تو کامیابی حاصل کرلی مگر زندگی کی جنگ ہار گئے۔ اپنے طویل سیاسی سفر کا یہ شیر دل بےباک لیڈر اپنے چاہنے والوں کو اداس چھوڑ کرہزاروں آنکھیں نمناک لاکھوں دل مغموم کرگئے، کروڑوں عوام ہنوز غم زدہ ہیں۔ گویا بہار اور ملک بھر میں ان کے حامی اور معتقیدین سوگوار ہیں ۔1943 جب کہ ملک عزیز پر اغیار کا قبضہ تھا ۔بہار کے پسماندہ اور وسائل سے محروم خطہ سیمانچل کے ارریہ ضلع کے ٹھیٹ دیہات سیسونا گاؤں میں 4 جنوری کو پیدا ہوئے الحاج تسلیم الدین نے اپنی سیاسی سفر کا آغاز پنچایت سرپنچ عہدہ کے انتخاب سے کیا تھا۔ اس کے بعد کبھی انہوں نے پلٹ کرنہیں دیکھا۔الیکشن جیتے دل جیتا سماج کو جوڑا عوام کے محبوب بنے مقبول ہوئے فرط محبت اور جذبئہ شوق میں لوگوں نے انہیں عقیدت و محبت میں سیمانچل گاندھی کے لقب سے ملقب کیا۔ اردو کے معروف ناقد و ادیب جناب حقانی القاسمی نے خطہ کی معتبر حوالہ جاتی تصنیف " رینو کے شہر" میں مرحوم لیڈر کے نام ایک عنوان انقلابی قائد کے نام قائم کرتے ہوئے رقم طراز ہیں " تسلیم الدین ایسا قائد ہیں جس کے اندر کشتیاں جلاکر آگے بڑھنے کا حوصلہ تھا جس کی پوری زندگی جد وجہد اور مزاحمت سے عبارت تھی' جس نے آگ کا دریا بھی پار کیا ' جو آتش نمرود میں بے خطر کود پڑا اور ایک ایسی علامت بن کر ابھرا جس کے خوف سے ایوان اقتدار میں لرزہ طاری تھااور جاگیردارانہ اقتدار کا ظالمانہ نظام بھی خوف زدہ تھا" گاؤں سے اٹھا یہ ابر سیادت و قیادت نے اپنے لئے معاصر سیاست میں مقبولیت اور محبوبیت کا نیا عنوان قائم کیا سیمانچل خطہ کے مختلف اسمبلی اور پارلیامانی حلقئہ انتخاب سے تاریخی فتح حاصل کی۔ آٹھ بار رکن اسمبلی اور پانچ ٹرم ممبر پارلمنٹ منتخب ہوئے۔ وزیر اعظم دیو گوڑا کی حکومت میں وزیر مملکت برائے امور داخلہ بنے۔ لیکن اپنی بےباک بیان کی وجہ سے محض 39 دن میں وزیر داخلہ کے وزارت سے استعفی دینا پڑ گیا۔وزیر اعظم ڈاکٹر منمو ہن سنگھ کی حکومت میں بھی وزیر بنائے گئے ۔اس کے علاوہ ریاستی حکومت میں دو بار وزیر کے عہدہ پر فائز ہوئے حسن اسلوبی کے ساتھ وزارت کے فرائض انجام دیا۔ انسانی تاریخ میں جب بھی کرشماتی شخصیات کا ذکر ہوگا تو مرحوم تسلیم الدین بھی بڑے ادب و احترام کے ساتھ یاد کئے جائیں گے۔ بے باک و جری صفت مرد مجاہد بزرگ سیاست داں نے اپنی پوری زندگی سماج کے لئے وقف کردیا تھا۔دلیر صفت مرحوم تسلیم الدین نے ترقیاتی کاموں کے علاوہ ایک بڑا کام بھی انجام دیا ہے جس کی ضرورت و اہمیت عصر حاضر میں مزید بڑھ گئی ہے یعنی سماجی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کا ماحول۔
بلا مبالغہ کہاجاسکتا ہے کہ اس نے پورے سیمانچل میں امن و آشتی کا ماحول قائم کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ اس نے سماجی میل جول کا ایک ایسا توازن قائم کیا تھا جہاں مذہب ذات اور برادری کے نام پر زہر پھیلانے اور لب کشائی کرنے والوں کی خیر نہیں تھی وہ ایک ایسا بھاری پتھر تھے جو سماج کی نفرت سے پر بلوں میں نکیل ڈالنے میں بھر پور کامیابی حاصل کی تھی ۔بطور مثال ان کے پرسنل سکریٹری کے نام کو پیش کیا جاسکتا ہے جو غیر مسلم تھا عام عوام نے جتنی محبتیں ان پر نچھاور کی تھی اتنی ہی محبت اس نے بھی لوگوں کو لوٹائی۔ ملاقاتیوں سے ہمیشہ ٹوٹ کے ملتے تھے نوجوان طبقہ کے ملاقاتیوں سے برائے نام ہی گفت و شنید کرتے تھے مگر بزرگ اور بوڑھے اشخاص کی نہ صرف قدر کرتے تھے بالکہ گھریلو احوال سے لے کر بچوں کی شادی بیاہ اور روز گار کے بارے میں بھی تفصیلی گفتگو کرتے تھے۔ ہر ملنے والے کے دل میں ایک ہی نقش ابھرتا تھا کہ ایم پی صاحب ہمارا خیال رکھتے ہیں۔اپنی مٹی سے محبت اور لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ رسم و رواج سے لے کر بولی تک یاد تھی۔ اکثر ملنے والوں سے اپنی ہی بولی میں کلام کرتے تھے ان کے لئے یہ سب عظمت کی بات تھی اب سے پہلے نسل کے چچا اور نئی نسل کے دادا سے کسی کو بھی کوئی شکایت نہیں تھی ہو بھی کیوں؟ ملنے والوں کے غمگسار چچا دادا ہوا کرتے تھے ان کے انتقال کی خبر سے سبھی مغموم ہیں اب ایک شمع بجھ گئی ایسی شمع جس نے کئی دہائی تک اپنی روشنی سے غریب مفلس عوام کی زندگیاں روشن کرنے والا پیرمغاں' تاریکیوں کے سینے چاک کردینے والا بلند حوصلہ اور اقبال مند تاریخی ہستی کے اوراق زندگی بند ہوگیا اسی کے ساتھ ہی سیمانچل کےایک تاریخ ساز عہد کا خاتمہ بھی ہوگیا ہے تاریخ ساز ہستیوں کا جب بھی کبھی احتساب کیا جاتا ہے تو اس کی خوبیوں اور خامیوں کا بھی تذکرہ ہوتا ہے مرحوم نے اپنے طویل سیاسی زندگی میں کئی قابل ذکر کارنامہ انجام دیا ہے بہت سے ایسے ضروری ترقیاتی کام جو ہوسکتا تھا مگر پایئہ تکمیل تک پہنچ سکا بطور خاص اعلی تعلیمی اداروں ٹریننگ انسٹیچیوٹ کا قیام نہیں ہوسکا ہے جو علاقہ کی پسماندگی کا اہم سبب بھی ہے اسی طرح کل کارخانہ کے لئے بھی ان کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں جس میں سرکاروں کی سرد مہری جگ ظاہر ہے بہرکیف عوام کا ایک بڑا طبقہ ملول خاطر ہے کلہیا برادی بھی شکوہ کناں ہیں مگر ناراض نہیں ہندو مسلم سماجی ہم آہنگی کا مثالی لیڈر الحاج تسلیم الدین اپنے تمام صفات کے ساتھ قبول تھے۔
سیمانچل میں تعلیمی کارواں کے سرخیل مولانا اسرارالحق قاسمی کی ذات گرامی جن کی شخصیت باکمال محتاج تعارف نہیں ہے جن کے کارنامہ کا ایک دنیا معترف ہے۔ مولانا مرحوم کی شخصیت ایسی ہی تھی جہاں قدم رکھا وہاں روشنی پھوٹ پڑی۔ عملی سیاست کے میدان میں کچھاڑ پچھاڑ کے اس دور میں بھی وہ اپنے وقار و متانت کے ساتھ نہایت خوش اسلوبی سے نہ صرف کشن گنج سے لوک سبھا کی نمائندگی کی بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی قیادت کا فریضہ بھی خوب احسن طریقے سے انجام دیا۔مولانا اسرارالحق قاسمی رحمتہ اللہ علیہ کی عبقری شخصیت کا پہلو روشن ہے ،ان کی حیات و خدمات اور تاریخی کارناموں کی ایک طویل فہرست ہےانہوں نے اپنی پوری زندگی قوم و ملک کے لئے وقف کردیا تھا۔وہ ایک بیباک خطیب، صاحب طرز صحافی، دوراندیش سیاست داں، اسلامی تعلیمات کا مبلغ اور قوم ملت کے مفکر تھے مولانا نے اکابرین کے نقش قدم پر چل کر دین اور سیاست کے نازک رشتوں کو مسلم بن کر نبھانا بھی سکھایا۔مولانا اسرارالحق قاسمی رحمہ اللہ علیہ کا سانحئہ ارتحال کے بعد سیمانچل خطہ میں جو ایک خلا پیدا ہوا ہے اس کی بھرپائی ممکن نہیں ہے۔ تاہم ہوشمندی کا مظاہرہ وقت کا تقاضہ ہے۔ہم سبھی اس بات سے واقف ہیں کہ یہ خطہ بہت سی وجوہات کے سبب نازک ہے لہذا یہاں اٹھنے والی چھوٹی چھوٹی چھنگاریاں بھی شعلوں کی شکل اختیار کرسکتی ہے جب تک مولانا مرحوم بقید حیات تھے شر اور فتنہ فساد بھی سرد تھا۔ غیر سماجی عناصر بھی مولانا کی بزرگی اور شرافت کے باعث نازیبا حرکتوں سے باز رہتے تھے مگر اب جذباتی سیاست کرنے والے پارٹیوں اور خرافاتی لوگوں پر نظر بنائے رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔
مرگ انبوہ میں ہم نے جن لعل وگہر کو کھودیا ہے جن کا کوئی نعم البدل نہیں ہے ان میں ہندوستان کے مشہور عالم دین اور جامعتہ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ سپول کے بانی و مہتمم مفتی محفوظ الرحمن عثمانی بھی ہیں جن کا تیئیس مئی دوہزار اکیس کو بہار کے دارالحکومت پٹنہ کے ایک اسپتال میں انتقال پرملال ہوگیا تھا ان کا انتقال پرملال عموما ملک و ملت اور خصوصا خطہ سیمانچل کے لئے عظیم خسارہ تھا مفتی صاحب نے اپنی زندگی کے کل اکسٹھ بہاریں دیکھی ان کا شمار ملک کے صف اول کے ملی و سماجی رہنماؤں میں تھا ۔اس نے ملک و ملت اور سماج کے لئے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ وہ دینی حمیت کے جذبہ سے سرشار اور خدمت خلق کے جذبہ سے لیبریز تھے ۔سیمانچل کے سپول اور اطراف میں بلاتفریق مذہب وملت اس نے لوگوں کی ہر موقع پر مدد کی اور زندگی سے مایوس عوام کو زندگی جینے کا حوصلہ دیا ۔جامعتہ القاسم کا قیام،اس کی تعمیر و توسیع اور انتظام ان کے جہدمسلسل اور حسن کاکردگی کی مثال ہے ۔اسی طرح بھارت میں ناموس رسالت کا احترام اور تحفظ ختم نبوت کی تحریک کو زندہ کرنے میں بھی وہ پیش پیش تھے۔ جس کا ملت کو خاطر خواہ فائدہ بھی ہوا ہے اور علاقہ میں ہزار کوششوں کے باوجود فتنئہ قادنیت اور شکیلیت پیر پسارنے میں ناکام ثابت ہواہے۔ ہندوستان کے اہم دینی تعلیمی اداروں اور شخصیات سے ان کےگہرے روابط تھے، جنھیں وہ اپنے دینی و تعلیمی مقاصد کی تکمیل کے لیے بحسن و خوبی کام میں لاتے تھے ان کی پیدائش 15اگست1960کوہوئی، اپنے وطن، سیوان،میرٹھ، دیوبند میں ابتدائی و ثانوی تعلیم حاصل کی اور 1986میں جامعہ مظاہر علوم سہارنپور سے فضیلت کی تکمیل کی تھی ۔مفتی محفوظ الرحمان عثمانی سیمانچل کے لئے امید کی ایک کرن تھے ۔جو ناگہاں رخصت ہوچکے ہیں۔ سال دوہزار سات اور بعد کے دنوں میں کوسی ندی میں آئے سیلاب کی تباہ کاری کے موقع پر ان کی خدمات آب زریں سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ مفتی صاحب کا فکری بصیرت بالیدہ تھا۔ لہذا تعلیمی پسماندگی کے خاتمہ کے لئے جامعتہ القاسم سے جس مشن کا آغاز کیا تھا وہ اس کو پائہ تکمیل تک پہونچانا چاہ رہے تھے۔ کسی بھی جہدکار کی طرح ان کے حوصلے بلند تھے اور عزائم جوان تھے۔
الحاج افضل حسین کی پیدائش قدیم پورنیہ کے ارریہ شہر سے متصل گیاری گاؤں میں مرحوم منشی احمد حسین کے گھر میں 1935 میں ہوئی تھی۔ بنیادی تعلیم گاؤں میں حاصل جبکہ اعلی تعلیم پٹنہ یونیورسٹی کے علاوہ دیگر اداروں سے حاصل کیا۔ اس کے بعد ارریہ سیشن کورٹ میں پیش کار کے عہدہ پر فائز ہوئے اور نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔دوران ملازمت انہوں نے علاقہ کی ہمہ جہت ترقی باالخصوص تعلیمی ترقی کے لئے بہت زیادہ کوششیں کیں۔ اور تعلیمی تحریک کا آغاز کیا۔ وہ اصلاح امت اور تعلیم کے تئیں فکر مند رہا کرتے تھے۔ جب 1979 میں ضلع کا واحد اور پہلا اقلیتی کالج الشمس ملیہ کالج کا قیام عمل میں آیا تو وہ بانی سکریٹری کے عہدہ پر فائز ہوئے ۔اور 1998 یعنی 18 سال تک سکریٹری کے عہدہ پر رہ کر کالج کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ اور ادارہ کو خون جگر سے سینچ کر جوانی بخشی۔ اس کے بعد پھر ڈگری کالج کے قیام میں بھی انہوں نے عملی اقدامات کئے۔ اس کے علاوہ وہ دارالعلوم رحمانی زیرومائل ارریہ، پپولس کالج ارریہ کے بھی بانی اراکین میں سے ہیں مرحوم الشمس ملیہ کالج کے تا حیات رکن اساسی تھے ۔مرحوم نیک، خوش اخلاق، اعلی کردار، خدا ترس، علم دوست اور درد مندل انسان تھے۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد تبلیغی جماعت سے وابستہ ہوکر اصلاح امت اور اصلاح سماج کے لئے کوشاں رہا کرتے تھے۔ دین مبین کی خدمت کے لئے انہوں نے شہر کے زیرومائل میں پانچ ڈسمل زمین پر ابھی حال ہی میں ایک مسجد کی بھی تعمیر کروائی ہے۔ جس میں مذہبی تعلیم کے علاوہ علم نافع کے ساتھ جدید تعلیمی ادارہ کے قیام کے خواہاں تھے۔ مگر اجل نے موقع نہیں دیا مرحوم قرآن پاک کی صحیح قرأت کے لئے بھی تگ ودو کرتے رہے۔ وہ اس کے لئے نورانی قاعدہ پہ بھی زور دیتے تھ ان کی بے لوث ملی خدمات کا ثبوت ارریہ کا واحد اقلیتی ادارہ کالج الشمس ملیہ ڈگری و انٹر کالج اور دارارالعلو رحمانی زیرومائل ہے۔ جو ترقی کی جانب گامزن ہے۔ اور ایک زمانہ فیضیاب ہورہا ہے وہ نہایت شفیق، متین، خوش اخلاق، اعلی کردار کے مالک متقی و پرہیزگار اور داعی دین تھےجب 1979 عیسوی میں جبکہ ضلع پورنیہ کا ایک سب ڈویزن ہوا کرتا تھا۔ موجودہ سیمانچل کے چاروں اضلاع کٹیہار، کشن گنج اور سپول بھی پورنیہ کا ایک حصہ تھا اور ارریہ پورنیہ ضلع کا ایک سب ڈویزن تھا اس وقت سیمانچل کے اس مقہور و مظلوم خطہ کو کالا پانی کہا جاتا تھا چونکہ یہاں کے لوگ قدرتی آفات کے شکار تھے۔ لہذا بہترین طرزندگی اور رہائش کا کوئی تصور بھی نہیں تھا مزید سیلاب کی قحط سامانی اور خشک سالی کی ستم رانیوں کے باعث لوگوں کی زندگیاں تباہی کے دہانے پر تھیں لوگ باگ تعلیم و تعلم سے کافی دور تھے بالکہ سرکاری تعلیمی اداروں میں محض پرائمری مڈل اور ایک آدھ ہائی اسکول تھا عموما ۸۰ کی دہائی میں ارریہ اور قرب و جوار کے اسٹوڈنٹ ہائی اسکول بورڈ کے لیے پورنیہ جاتے تھے لہذا مسافت اور دوری کی وجہ سے تعلیم کی شرح افسوسناک حد تک مایوس کن تھا۔ اور وہ وقت مرحوم تسلیم الدین کی سیاسی اقبال مندی اور مولانا شاہ منورحسین نوّراللہ مرقدہ کی روحانی فیضیابی کا زمانہ تھا ۔اس وقت مرحوم افضل حسین نے ارریہ کی تعلیمی پسماندگی کے خاتمہ کے لئے تحریک کا آغاز کیا اور ایک بڑے حلقہ کو اس کار نیک کے لئے تیار کیا اس میں اس وقت کے دو عظیم شخصیات مرحوم تسلیم الدین اور مولانا منورحسین کو ایک اسٹیج پر لاکر تعلیمی ادارے کے قیام کے کئے راہ ہموار کرنا تھا ان کی تحریک پر باالآخر 1979 میں الشمس ملیہ کالج اور دارالعلوم کی بنیاد رکھ دی گئی اور مولانا منورحسین رحمتہ اللہ علیہ نے دارالعلوم کی سرپرستی کی جبکہ مرحوم تسلیم الدین نے الشمس ملیہ کالج کے لئے ممکنہ تعاون کیا۔مرحوم کی ملی، رفاہی اور سماجی خدمات آب زرریں سے لکھے جانے کے قابل ہے اس نے اپنے عین جوانی میں ملت کی سرپرستی کی تھی۔
سیمانچل کے ارریہ کی مردم خیز زمین نے کئی لعل و گہر پیدا کئے ان میں سے ایک گو ہر تا بدار حضرت زبیرالحسن غافل کی شخصیت رہی ہے۔ایک ایسی شخصیت جو گوناگوں اوصاف کی حامل رہی ہے۔ جن کے قلم کا جادو ہر خاص و عام پر طاری ہے ۔ جن کے گفتار و کردار کا ایک زمانہ معترف رہا ہے ۔ شہر سے چند میل دور تاریخی گاؤں کملداہا کے ایک زمین دار گھرانے میں جنوری 1934ء میں پیدا ہوئے مگر ان میں زمین دارانہ رعونت رتی بھر بھی موجود نہیں تھیں بلکہ ان کے مزاج میں صوفیانہ تصور اور برد باری ہمہ وقت اجا گر رہتا تھا۔ ان کے والد محترم جناب ظہور احسن نہایت ہی شریف النفس انسان تھے ۔ بقول غافل صاحب میرے والد محترم پیشہ سے مختار تھے لیکن اخیر تک ایک نا کام مختار ہے کیوں کہ بے ایمانی اور عیاری کافن انہیں نہیں آسکا ۔ غافل صاحب کی ابتدائی تعلیم گاؤں کے مکتب میں ہوئی ۔1960ء میں انہوں نے ایچ ای ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا ۔1922ء میں انہوں نے پورنیہ کا لج سے بی ایس سی پاس کیا ۔ 1969 ء میں ایل ایل بی کر نے کے بعد ارریہ سول کورٹ میں وکالت شروع کی ۔ 1975 ء میں منصفی کے مقابلہ ذاتی امتحان میں شریک ہوئے اور منصف کے عہدہ پر تقرری ہوئی ۔عدلیہ میں کئی عہدوں پر فائز رہے ۔ بالآخر جنوری 2004ء میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے عہدے سے ریٹائر ہوۓ ۔محکمہ عدلیہ میں رہتے ہوۓ انہوں نے کئی اہم اور تاریخی فیصلے دیے جن کے معترف ان کے ہم منصب بھی رہے ہیں ۔ عدلیہ کی پر خار وادی کو جس خوش اسلوبی سے انہوں نے عبور کیا وہ یقینا قابل داد ہے ۔ غافل صاحب کے والد محترم ایک صاحب بیاض شاعر ر ہے ہیں۔ان کے نانافر زندعلی شیدا اردو وفارسی کے اچھے شاعر تھے اور ان کے ماموں جناب اسلام الدین مخمور بھی شاعر تھے اور پیشہ سے وکیل تھے ۔ یعنی شاعری اور وکالت غافل صاحب میں وراثتا منتقل ہوئی ، جیسا کہ انہوں نے خوداعتراف کیا۔، اس طرح میرے اندر شاعری و وکالت کے جراثیم وراثتاً منتقل ہوئے لیکن میں نہ تو کامیاب شاعر بن سکا اور نہ میں ایک کامیاب وکیل بن سکا ، حالانکہ یہ ان کی انکساری ہے۔ غافل صاحب کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ شعرو سخن کے ساتھ ساتھ وہ سماجی،تعلیمی اور ملی کاز میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے ان کا ایک شعری مجموعہ "اجنبی شہر" چھپ کر مقبول وعام وخوص ہوچکا ہے۔
ملک کے مشہور ومعروف صحافی ڈاکٹر عبدالقادر قاسمی شمس جن کی شخصیت قابل رشک تھی دور ناگہانی اور قحط الرجال کے زمانہ میں آپ کی شخصیت پیکرخلوص ومحبت اور جہدمسلسل کا تھا۔ایک بڑے میڈیا گھرانہ سے وابستگی کے باوجود قوم وملت کے لئے کچھ کرگزرنے کی تڑپ اور لگن جو آپ میں تھی اس کی مثال شاذونادر ہی ملتی ہے۔ڈاکٹر عبدالقادر شمس کی ناگہانی موت یقینا عظیم اور ناقابل تلافی خسارہ ہے ۔جس کی بھرپائی مستقبل قریب میں ممکن ہی نہیں ہے ۔یہ جملہ محض کہنے بھر نہیں ہے واقعی وہ ایک جری،بے باک اورصاحب طرز صحافی کے ساتھ ساتھ علمی،دینی وملی اور سماجی خدمت گار تھے۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی میں سماج کے لئے بیش بہا خدمات انجام دیں۔سال 1989 میں ازہر ہند دارالعلوم دیوبند سے فضیلت یافتہ ہونے کے بعد انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز اپنے وطن ارریہ کے ککڑوا گورنمنٹ مڈل اسکول میں پرائیویٹ مدرسی سے کیا تھا۔ اس دوران انہوں نے اسکولنگ کے اپنے ادھورے تعلیم کے خواب کو بھی پورا کیا ۔اور ملیہ کالج ارریہ سے انٹرمیڈیٹ ،گریجویشن کی تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پی جی اور اسلامک اسٹڈیز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے سرفراز ہوئے ۔ہمہ وقت کچھ نہ کچھ کئے جانے کی دھن اور لگن کا ہی نتیجہ تھاکہ وقت کے مایۂ ناز فقیہ حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی نوراللہ مرقدہ کی پارکھی نظر نے ان کے اندر مخفی جوہر اور صلاحتیوں کو پہچان لیا۔اور انہیں اپنے ساتھ لگالیا۔ چونکہ قاضی مجاہدالاسلام رحمتہ اللہ علیہ کو یقین کامل تھا عبدالقادر پیران پیر عبدالقادر جیلانی نہیں تو عبدالقادر شمس ضرور بنیں گے ۔جو مستقبل میں مسلم امہ اور سماج کے نافع اور مرجع خلائق ہوں گے ۔ایسا ہی ہوا قاضی مجاہدالاسلام صاحب کے حیات میں ہی عبدالقادر صاحب نے اپنی صلاحیت اور محنت کے بل بوتے پہ آل انڈیا ملی کونسل کے ضلع سے لیکر بہار اور جھارکھنڈ کے آرگنائزر تک کا سفر طے ۔کیا بہار اور جھارکھنڈ میں کئی ایک اہم اور نہایت مفید نوعیت کے تقریب میں تندہی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی کو پورا کیا ۔قاضی صاحب کا فیضان نظر تھا کہ وطن عزیز بھارت کے گمنام اور حاشیائی خطہ سیمانچل کے ارریہ کا ایک ہونہار سپوت نوعمر عالم دین نے پھر کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا ۔بڑھے اور بڑھتے ہی چلے گئے ترقی کی مزلیں طے کیں،صعوبتوں کو مات دیا اور ملک کے ایک بڑے میڈیا گھرانہ سے وابستہ ہوگئے جہاں انہوں نے سب ایڈیٹراور کالم نگار حیثیت سے کم و وبیش دو دہائی تک قندیل حق کو روشن کیا۔روزنامہ راشٹریہ سہارا میں منظر وپس منظر کے نام سے شائع ہونے والے اپنے ہفتہ وار کالم میں مختلف اہم موضوعات پہ بے طرح لکھتے رہے مسائل کے انبار والے اس دیس میں لکھنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے مگر جیسا لکھا جانا چاہیے یا جن موضوعات پہ قلم اٹھانے کی ضرورت ہے اس سے بہت سے اصحاب قلم دانستہ یا غیردانستہ طور پہ گریز کرتے ہیں۔ حالانکہ خون دل میں ڈبولی ہے انگلیاں میں نے کے مصداق ایک بڑی تعداد صاحب قرطاس و قلم کی ایسی بھی ہے کہ وہ جان ہتھیلی پہ رکھ کے سچ اور حق کہنے کی جرأت رندانہ کے خوگر ہیں ۔اسی قبیل کے ڈاکٹر عبدالقادر شمس بھے تھے جو ہرحال میں اپنی صحافتی دیانتداری کو نبھانا فرض عین سمجھتے تھے۔
نئی نسل کے نامور قلمکار، منفرد نقاد، صحافی و مبصر حقانی القاسمی جن کی پیدائش بہار کے ضلع ارریہ میں 26جنوری 1970 میں ہوئی۔ حقانی القاسمی اردو کے معروف ادیب نقاداور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق ارریہ ضلع سے ہے۔ انہوں نے بنارس، دیوبند اور علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی فراغت کے بعد اردو کے بہت سے اخبارات سے ان کی وابستگی رہی۔ جن میں ہفت روزہ اخبار نو، ہفت روزہ نئی دنیا قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے مجلہ استعارہ کے ادارت کے فرائض انجام دیے ہیں۔ ان کی تقریباً 12 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ طواف دشت جنوں، ادب کولاز، تنقیدی اسمبلاز، رینو کے شہر میں، لا تخلف، خوش بو روشنی رنگ، بدن کی جمالیات ان کی اہم کتابیں ہیں۔ ا نہیں مختلف ادبی اداروں کی طرف سےایوارڈ مل چکے ہیں۔ ان کی ادارت میں یک موضوعی مجلہ انداز بیاں شائع ہو رہا ہے۔
محترمہ انوری خاتون 1952 میں ارریہ کے درمیانہ گھرانہ میں پیدا ہوئیں گھر کی حالت بہت مستحکم نہیں تھی اور تعلیم و تدریس کا کوئی موزوں و مناسب ماحول نہیں تھا۔ پھر بھی اس نے اپنی ذاتی کوشش اور جدوجہد سے اعلی تعلیم حاصل کی۔ ساتھ ہی بی ایڈ کیا اور محکمہ تعلیم میں ٹیچر کے عہدہ پہ بحال ہوئیں اور ارریہ گرلز ہائی اسکول سے 2012 میں بحیثیت پرنسپل ملازمت سے سبکدوش ہوئیں۔ محترمہ انوری خاتون کی زندگی جہدمسلسل سے عبارت ہے۔ نامساعد حالات میں استقامت کے ساتھ حصول تعلیم میں منہمک رہنا اور جس دور میں بچوں کی تعلیم عام نہیں تھی اس دور میں تعلیم نسواں کا مشعل روشن کرنا یہ ان ہی کا خاصہ ہے۔ ان کی شخصیت ہمہ جہت اور قابل تقلید ہے وہ نہ صرف اچھی معلمہ ہیں بلکہ ان کا شعرو ادب کا ذوق بھی بالیدہ رہا ہے۔ تعلیم وتدریس کے درمیان بچیوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ خواتین میں خود اعتمادی اور خود انحصاری کے جذبہ کو فروغ دینا،حق و انصاف کے لئے سینہ سپر ہونا،فرائض کی ادائیگی میں ثابت قدم رہنا ان کی شخصیت کا خاصہ ہے ۔وہ ابھی بقید حیات ہیں اور فعال ہیں۔
سیمانچل میں جن قابل قدر ہستیوں کی نمایاں ادبی و سماجی خدمات کا اعتراف کیا جاسکتا ہے ان میں ارریہ کہ معزز شخصیتوں میں سے ایک اہم نام ڈاکٹر سالک اعظم کا ہے 20 جنوری 1943 کو ارریہ فروٹا گاؤں میں پیدا ہوئے ۔دربھنگہ میڈیکل کالج سے 1968 میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور کرنال ہاسپیٹل ہریانہ سمیت حکومت بہار میں میڈیکل خدمات انجام دیا ہے ڈاکٹر سالک اعظم ماہر امراض جلد ہیں وہ اپنی سنجیدگی، انداز گفتگو،نفاست، متانت اور دل کش شخصیت کے سبب عوام میں خصوصا ادبی حلقہ میں کافی مقبول ہیں۔ علاج و معالجہ کے مصروف ترین پیشہ کے باوجود اردو ادب سے گہرا رشتہ ہے ۔حالات حاضرہ اور گردوپیش میں رونما ہونے والے واقعات جنہیں عام لوگ نظر انداز کرتے ہیں ان پر طنز و مزاح کا نشتر چلانے میں ماہر ہیں۔
خطہ کے ہونہار سپوت ماسٹر محمد محسن جنہیں ملی تحریک کا سرخیل ہونے کا شرف حاصل ہے۔ 1949 میں پیدا ہوئے ماسٹر محمد محسن اپنی تعلیمی مراحل سے گزرنے کے بعد حکومت بہار کے محکمہ تعلیم میں بحیثیت معلم بحال ہوئے۔ اور ہیڈ ماسٹر کے عہدے سبکدوش ہوئے وہ ماہر تعلیم اور درجن سے زائد سماجی،ادبی،نیم ادبی اور ملی تنظیموں کے سربراہ ہیں ۔اور سرگرم و فعال ہیں اس نے اپنی زندگی کا مشن اور نصب العین نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور اقامت دین بنایاہے۔ بچوں کی تعلیم کے علاوہ بچیوں کی تعلیم پر بھی انہوں خاص دھیان دیا ہے۔ان کی سربراہی میں کلیتہ الصالحات ارریہ بچیوں کی تعلیم کے لئے ایک منفرد ادارہ ہے۔ جہاں محفوظ اور دین آشنا ماحول میں. بچیوں کو تعلیم و تعلم کے زیور ست آراستہ وپیراستہ کیا جاتاہے۔
الحاج قمر مسعود سیمانچل کے معروف اور ممتاز شخصیت ہیں بے باکی اور حق گوئی کے شعار سے متصف قمر مسعود کی تعلیمی خدمات بیش بہا ہے قمر مسعود کی پیدائش 30 ستمبر 1939 کو ارریہ کے مردم خیز گاؤں بگڈھرا میں ہوئی ہے۔درس و تدریس کے پیشہ سے 38 سال تک وابستہ رہے اور تدریسی ملازمت سے 30 ستمبر 2000 میں آزاد اکیڈمی میں پرنسپل کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ وہ اقلیتی تعلیمی ادارے الشمس ملیہ کالج ارریہ ،کلیتہ الصالحات جیسے مختلف تعلیمی اداروں سے جڑے رہے ہیں تعلیم نسواں کے لئے ہمیشہ فکر مند رہے۔ بچیوں کا اعلی تعلیمی ادارہ کلیتہ الصالحات ارریہ کے صدر ہیں اور ملی کاز میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔
ڈاکٹر احمد حسن جن کا شاعری میں تخلص دانش ہے 13 ستمبر 1945 میں پیدا ہوئے احمد حسن کی شخصیت ادبی دنیا میں محتاح تعارف نہیں ہے نوگچھیا بھاگلپور میں پیدا ہوئے احمد حسن نے پورنیہ کو اپنا جائے عمل بنایا ۔اور علاقہ میں شعرو سخن کی قندیل روشن کی ہے۔ ڈاکٹر احمد حسن کی ادبی دانشوری کئی جہتوں پر مشتمل ہے ۔ان کی ادبی شناخت مختلف اصناف ادب کے حوالے سے ہے وہ ایک معتبر شاعر،بہترین افسانہ نگار اور باشعور ناقد کے طور پہ جانے جاتے ہیں مختلف اصناف ادب پر ان کی سات عدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں جو ادبی اور تاریخی ہے تاحال وہ شعر و داب کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
الحاج تسلیم الدین اور مولانا اسرارالحق قاسمی کے بعد سیمانچل کے باشندوں کے لئے سیاسی طور پہ انصاف کی لڑائی کو آگے بڑھانے میں اخترالایمان کا بڑا اہم رول ہے۔ کشن گنج کے کوچادھامن اسمبلی حلقہ سے سابق رکن اسمبلی اور اور پورنیہ کے امور اسمبلی حلقہ کا موجودہ رکن اسمبلی اخترالایمان کی شخصیت مقناطیسی ہے وہ جری اور بے باک تو ہیں ہی ملک وملت اور سماج کے لئے ان کے دل میں ہمیشہ ایک جذبہ موجزن رہتا ہے۔یہی وجہ ہے وہ سیمانچل کی لڑائی میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں ان کے اہم کارناموں اردو اساتذہ ، اے ایم یو کشن سنٹر ہےایوان میں حقوق کی بازیابی کے لئے ان کی کوششیں قابل قدر ہیں اور انہوں نے عوام کو سماجی و سیاسی طور پر بیدار کردیا ہے لہذا اب رفتہ رفتہ سیمانچل کی صورت و سیرت میں تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔
سیمانچل میں سیکڑوں ایسے اصحاب علم و فضل اور باکمال شخصیات نے جنم لی ہیں جن کا احاطہ کرنا یہاں ممکن نہیں ہے۔ چند ایک کا ذکر خیر بطور نمونہ کیا گیا ہے۔ سیمانچل دن بدن تعلیمی ترقی کی جانب گامزن ہے۔ یہاں سے اب صحافی و ادیب اور شاعر و خطیب کے ساتھ ساتھ بیورکریٹس بھی منتخب ہورہے ہیں ۔اور ملک و بیرون ملک میں رہ کر ملک و قوم اور انسانیت کی خدمت کے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ سلسلہ جای و ساری رہے۔
abdulghani630@gmail.com
Note: مضمون نگار معلم، سماجی کارکن اور روزنامہ انقلاب پٹنہ سے وابستہ ہیں۔