صدر اردوگان کی فتح: عثمانی عظمت رفتہ کی بحالی کاتاریخی سفر
ریاض الدین قاسمی، مولانگر
۱۴/ مئی ۲۰۲۳ء بروز اتوار کو منعقد ہونے والا ترکیہ کا صدارتی انتخاب اپنے تمام انتخابات میں سے مشکل ترین انتخاب تھا، کیونکہ ایک طرف اسلام دشمن طاقتوں کی پوری جمعیت اپنی مخالفت اور ریشہ دوانیوں کے ذریعے ترک صدر طیب اردوگان کو شکست دینے کے لیے مکمل طور پر متحد اور مجتمع تھی، اور مختلف افکار کی حامل ترکیہ کی چھ بڑی جماعتیں جو اردوگان کی مخالف تھیں اور دیگر کئی ذیلی جماعتوں نے اسلام دشمن جماعت کے ساتھ اتحاد قائم کرلیا تھا، تاکہ لازمی فتح حاصل کی جاسکے، اور ترکی زبان میں ایک نعرہ ( ھیدی)زبان زد کرلیا گیا تھا جسکے معنی آگے بڑھو، اور اسی نعرہ کو انتخابی تھیم بنا لیا گیا تھا، جس سے لوگ متاثر بھی ہو رہے تھے، اور دوسری طرف ایک بڑی پریشانی، حال ہی میں خوفناک زلزلے سے ہونے والی تباہی سے نبرد آزمائی بھی تھی، جسمیں تقریباً ۵۰ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے، جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے تھے۔ کلیسا نوازوں کی مختلف طرح طرح کی ریشہ دوانیوں کا بھی بہت حد تک انتخابی معرکہ میں اثر ظاہر ہورہا تھا جسکی وجہ سے پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی، اگرچہ ۴۹.۵۱/ فیصد ووٹ پاکر اپنے مد مقابل سےتقریباً ۲۵ لاکھ سے زائد ووٹوں سے فوقیت حاصل کئے ہوئے تھے ۔
ترکیہ میں انتخابی جائزے میں کامیابی کے لیے حاصل شدہ ووٹوں کا تقریباً نصف یا اس سے زائد ووٹوں کا حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے، رجب طیب اردگان صاحب صرف، ۰.۵ فیصدی ووٹوں کی کمی سے عدد معین کے نشان تک نہیں پہنچ سکے تھے جسکی وجہ سے صدارتی انتخاب کو از سر نو دوسرے مرحلے میں مکمل کرنا پڑا جس میں بفضل ایزدی عثمانی روایات کے امین اور سرخ ہلال عثمانی کے علمبردار رجب طیب اردگان نے اسلام پسند محبین کی حمایت سے تقریباً ۵۳/ فیصد رائے شماری حاصل کرکے کمال اتاترک کے حواریوں اور دجالی قوتوں و صہیونی فتنہ پردازوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے ۔
عالم اسلام کے لئے یقیناً خوشی و شادمانی کا مقام ہے کہ خلافت عثمانیہ کے خوشہ چینوں نے کلیساؤں کے پروردہ اسلام دشمن طاقتوں کے مہروں پر فتح حاصل کی ہے ، حالانکہ دجالی میڈیا نے ترکیہ کے غیرت مند عوام کے ووٹوں کو ضائع کرنے کے لئے ہر طرح کے ہتھکنڈوں اور پروپیگنڈوں کا سہارا لیا تھا، لیکن بقول صدر رجب طیب اردگان کہ جو لوگ خدمت کرتے ہیں انہیں نقصان اٹھانا نہیں پڑتا ہے۔
اردگان کی فتح عالم اسلام کی فتح کے مانند تھا۔ان کی فتح پر یقناً یورپ و مغرب ناخوش ہے، کلیسا اور اسکے پیرو کاروں کے درمیان صف ماتم بچھا ہوا ہے۔ استنبول، جو پہلے قسطنطینیہ تھا، اگر ایک طرف مشرقی مسیحی کلیساؤں کا دل تھا تو دوسری طرف رومی بازنطینی سلطنت کا بھی مرکز تھا۔ جب 1453ء میں محمد الفاتح نے بالآخر اسے فتح کیا تو دیگر کاموں کے علاوہ یہ ہوا کہ آیا صوفیا، جس کی حیثیت مشرقی کلیسا کےلیے وہی تھی جو مغربی کلیسا کےلیے ویٹیکن کی ہے، مسجد میں تبدیل ہوگئی تھی لیکن سقوط سلطنت عثمانیہ کے بعد ایک لادین شخص مصطفی کمال اتاترک نے اس مسجد کو میوزیم میں تبدیل کرلیا ۔
سلطنت عثمانیہ جس کے اندر تمام امت مسلمہ ایک خلیفہ کے ماتحت ایک لڑی میں پروئی ہوئی تھی اور جو عثمانی خلافت کے زیر سایہ ایک متحدہ امت کی حیثیت سے موجود تھی جسے ایک ناپاک سازش کے تحت تار تار کر دیا گیا، اورترکی کی سرحدیں متعین کی گئیں، جس کی وجہ سے سعودی عرب سمیت 40 سے زیادہ مسلم ممالک خلافت عثمانیہ سے نکل کر آزاد ممالک کے طور پر وجود میں آئے ،اس سازش کی رو سے خلافت عثمانیہ ختم کردی گئی، سلطان عبد الحمید ثانی کو ان کے خاندان سمیت ترکی سے جلاوطن کر دیا گیا، حتٰی کہ سلطان کی ذاتی املاک بھی ضبط کرلی گئیں، ترکی کو ایک لا مذہب حکومت قرار دیا گیا ، اس معاہدے کی رو سے ترکی نے تینوں براعظموں میں موجود خلافت کے اثاثوں اور املاک سے بھی دستبرداری اختیار کرلی۔ ترکی کو مفلوج کرتے ہوئے اس سے اپنا ذاتی تیل نکالنے کی اجازت سلب کرلی گئی، اور جس کی رو سے ترکی اپنے سمندری راستے سے گزرنے والے غیر ملکی بحری جہازوں سے کوئی ٹیکس وصول نہیں کرسکتا، ان شرائط پر عمل کرتے ہوئے مصطفی کمال اتاترک نے لا دین حکومت کی بنیاد رکھی تھی، اور خانہ جنگی لوٹ مار اور تعیش پسندی کی وجہ سے اس ترکی حکومت کو یورپ کا مرد بیمار کہا جانے لگا جسمیں اسلام پسندوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی مساجد ومدارس کو اصطبل خانہ اور شباب و شراب کا مسکن بنا دیا گیا تھا خباثت و بے حیائی کا دور دورہ تھا۔
لیکن پھرسو سالہ سے زائد جدو جہد کے بعد دوبارہ ترکی کے اندر اسلام پسندوں کی حکومت آئی جسے بار بار سبو تاز بھی کیا گیا اور اسی وجہ سے عدنان میندریس جیسے اسلام پسند حکمرانوں کو سولی پربھی چڑھا یا گیا، اور نجم الدین اربکان جیسے اسلام پسندوں نے بھی قیادت کی)، ۲۰۰۲ء میں جب رجب طیب اردگان نے حکمرانی کی باگ ڈور سنبھالی تو اس وقت یہ حکومت ترکیہ جسے یورپ کا مرد بیمار کہا جاتا تھا اس مرد قلندر کی دانائی وبینائی کیوجہ سے کچھ ہی عرصہ میں صحت اور تنومند ترکیہ بن گیا اور مقروض و خستہ حال ترکیہ معاشی اور سیاسی ترقی کے اعتبار سے ایک باوقار ترکیہ کہا جانے لگا، ترک صدر طیب اردوان کی حکومت نے آئی ایم ایف کا تمام قرضہ ختم کرکے ترکی کو آئی ایم ایف کے چنگل سے بھی باہر نکال لیا ہے۔ ترکی یورپی یونین کسٹم کا ممبر بھی ہے جس کا معاشی فائدہ بھی ترکیہ کو حاصل ہے، اسی مرد قلندر رجب طیب اردگان کی وجہ سے ہی آج ترکیہ ترقی کی شاہراہ پر رواں دواں ہے۔
جس آیا صوفیاء میوزیم بنا دیا گیا تھا، صدر محترم کی کوششوں کی وجہ سے کچھ عرصہ قبل یہاں پھر سے اذان شروع ہوگئی ہے اور ایک مختصر حصے میں نماز بھی ہوتی ہے۔ آیا صوفیا کا منارہ بالکل کسی نیزے کی طرح نظر آتا ہے جو دشمن کے سینے میں پیوست محسوس ہوتا ہے۔ عالم اسلام میں رجب طیب اردگان کی فتح پر خوشی کا ماحول کیوں نہ ہو کہ کمال اتاترک کے ان چیلوں کوشکست کا سامنا کرنا پڑا ہے جنہوں نے فتح کے بعد دوبارہ ترکیہ کو لادین اور لامذہب ملک بنانے کا بیڑہ اٹھا رکھا تھا۔
کمال دیکھیے کہ لامذہب کمال اتاترک کے الا مذہب پیروکار کانام بھی کمال (کمال قلیچ دار اوغلو) ہی ہے، اس کی شکست پر کیوں نہ خوش جائے کہ بعض مبصرین نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ۲۹ مئی،۱۴۵۳ء جس طرح سلطان محمد الفاتح کے قسطنطنیہ کے فتح پر عالم اسلام کو خوشی حاصل ہوئی تھی اسی طرح ۲۸ مئی، ۲۰۲۳ء کے انتخاب میں رجب طیب اردگان کی فتح سے عالم اسلام کو دوبارہ وہی خوشی حاصل ہوئی ہے۔ ترکیہ جس طرح ۲۸ مئی ۲۰۲۳ء سے قبل تھا، ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ اس فتح کے بعد اب اس سے کہیں اور بہتر شکل میں موجود رہے گا۔
Note: