معرفت الٰہی کا فلسفہ سمجھنا ضروری ہے!
مدثر احمد قاسمی
انسانوں پر نئے انکشافات کے دروازے اس کی جستجو، تلاش اور پھر شناخت کے صدقے میں کھلتے ہیں۔ اسی بنیاد پر انسان مختلف شعبہ ہائے حیات میں قابل قدر ترقی کرتا ہے اور یہی سلسلہ حتمی طور پر عروج انسانی کی ضمانت بنتا ہے؛ کیونکہ جہاں یہ سلسلہ رکتا ہے وہی جمود و تعطل کا نقطہ آغاز ہوتا ہے اور وہیں سے انسان روشنی سے اندھیرے میں پہونچ جاتا ہے۔
بعینہ یہی نقشہ اور طریقہ معرفت الٰہی کا یعنی اللہ رب العزت کو کما حقہ جاننے اور پہچاننے کا ہے؛ چنانچہ جب تک انسان معرفت الٰہی کی جستجو اور حصول میں مست و مگن رہتا ہےاوراس کے لیئے اللہ تعالی کے کلام قرآن کریم پر تدبر کرتا ہے، اس کے پیارے ناموں اور بلند صفات کو اپنی زندگی میں لازم پکڑتا ہے اور ان کے معانی اور اثرات پر غور کرتا ہے نیز انہی کیفیات کے ساتھ کثرت سے اللہ کی عبادت کرتا ہے، تو اس وقت تک انسان کی ترقی ہوتی رہتی ہے اور اس کو کامیابی ملتی رہتی ہے۔ اس عمل سے انسان کو معرفت کی راہ میں وہ منزل مل جاتی ہے جو حاصل عبدیت ہے۔ جیسا کہ سورہ ذاریات آیت 56 'ہم نے نہیں پیدا کیا جن و انس کو مگر اپنی عبادت کے لیئے' میں لیعبدون کی تشریح رئیس المفسرین حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لیعرفون سےکی ہے۔ اس کا خلا صہ یہ نکلتا ہے کہ تخلیق انسانی کا مقصد معرفت والی عبادت ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: "اللہ تعالی کی معرفت ہی ہر علم کی بنیاد ہے اور یہ معرفت بندے کی سعادت، کمال اور دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔اس سے لاعلمی کا مطلب بندے کا اپنے نفس، اس کے آداب اور طریقہ کار سے لاعلمی ہےکہ اس لاعلمی سے نہ پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اور نہ کامیابی۔"
ہمارے لیئے یہاں اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم معرفت باری تعالیٰ کے باب میں اس مقام پر ہیں جہاں سے ہماری روحانی پرواز بلند سے بلند تر ہوسکے اور اس سبق میں ہم روز بروز آگے بڑھ سکیں؟ حقیقیت یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کے پاس اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں ہے؛ کیونکہ معرفت باری تعالیٰ کا مطلب تو یہ ہے کہ ہمیں دنیا کے ہر ذرے سے اور تخلیق باری تعالیٰ کے ہرجزء سے اللہ کے عظیم الشان ہونے کا یقین کامل ہو۔ لیکن افسوس کہ بات یہ ہے کہ حقیقت حال ایسی نہیں ہے کیونکہ ہم میں سے اکثر لوگ تخلیق باری تعالیٰ اور عجائبات دنیا کو دیکھ کر باری تعالیٰ تک پہنچنے کے بجائے انہی چیزوں میں کبھی کھو کر اور کبھی الجھ کر رہ جاتے ہیں اور ایسا اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم نے خالق کے بجائے مخلوق کو اپنا مقصد بنا لیا ہے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ معرفتِ ربانی میں پہلا مرحلہ اطاعت الٰہی ہے کیونکہ بندہ صحيح معنوں میں اطاعتِ الٰہی کا حق اسی وقت ادا کرسکتا ہے جب اسے ﷲ رب العزت کی معرفت حاصل ہو۔اس سے آگے ہمارے لیئے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ معرفت اور محبت لازم و ملزوم ہیں کہ جب ہم اللہ رب العزت کی عظمت کو جان کر اطاعت کے راستے معرفت کا جام پیتے ہیں تو ہم محبت باری تعالیٰ کے اسیر بن جاتے ہیں۔یہی وہ مقام ہوتا ہے جب انسان خود سے جدا ہوکر ہر لحظہ اللہ رب العزت کی معیت میں چلا جاتا ہے۔ اس حساب میں تفریق (خود سے جدا ہونا) پہلے ہوتا ہے اور جمع (معیت باری تعالیٰ کا احساس) بعد میں ہوتا ہے۔
معرفت و محبت کے اس فلسفے کو انسانی عقل سے قریب ایک مثال سے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر کسی ایک انسان کو دوسرے انسان سے دوستی ہے تو وہ انسان اپنے دوست سے متعلق تمام چیزوں کو بھی بنظر محبت اس وجہ سے دیکھتا ہے کہ وہ چیزیں اس کے دوست سے منسوب ہیں۔ اس عمل کے درمیان اگر دوستی کرنے والا انسان دوست کے بجائے دوست سے منسوب چیزوں میں کھو جائے اور ان کو مقصود بنالے تو یہ شخص دنیا کی نظر میں بے وفا اور نامراد کہلائے گا۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی اللہ سے محبت کا دعوہ تو کرے مگر وہ اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں میں اس طرح کھو جائے کہ مقصود حقیقی اللہ رب العزت سے ہی دور ہو جائے تو یہ شخص بھی شریعت کی نظر میں بے وفا اور نا مراد گردانا جائے گا۔
یاد رکھیئے! اللہ رب العزت کے تعلق سےعدم معرفت اور فقدان محبت ہی ہماری تمام پریشانیوں کی اصل بنیاد اور محرومیوں کی کلیدی وجہ ہے۔ وہ لوگ جو اس جرم کے مرتکب ہیں، اللہ رب العزت نے اس طرح کے لوگوں کے تعلق سےصاف طور پر قرآن مجید میں یہ ارشاد فرما دیا ہے: "اللہ تعالیٰ کی جیسی تعظیم کرنی چاہئے تھی، ان لوگوں نے نہیں کی، یقیناً اللہ بڑے طاقتور اور سب پر غالب ہیں۔"(الحج:74)
خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی پر لطف، پر امن اور رو بہ ترقی ہو تو ہمیں اس راستے پر چلنا ہوگا جس راستے پر چل کر ہم معرفت الٰہی اور محبت باری تعالیٰ میں آگے بڑھ سکیں۔
Note: