Friday, March 29, 2024 | 1445 رمضان 19
Muslim World

!فرق مراتب شریعت اسلامیہ کے دائرے میں

اسلام نے زندگی گزارنے کے بہت سارے خوبصورت و خوب سیرت اصول بتلائے ہیں اور انسانی دنیا کو وہ طریقے سکھلائے ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر ایک مثالی سماج اور معاشرے کی تشکیل ممکن ہے۔اس کے باوجود ہم ایک عجیب و غریب کیفیت اور افراتفری جیسی صورت حال سے دوچار ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں ہر فرد زندگی گزارنے کے اسلامی اصولوں کی الگ الگ تشریح کرتا ہے اور اسی وجہ سے ہمارے معاشرے میں ایک ناپسندیدہ بے ترتیبی پائی جاتی ہے۔

آئیے! اس بات کو ہم ایک عملی مثال سے سمجھتے ہیں۔ اسلام نے مساوات کی تعلیم دی ہے جیسا کہ اس حوالے سے ایک مشہور حدیث ہے: سیدنا جابر رضى اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایام تشریق کے درمیانے دن کو خطبۃ الوداع ارشاد فرمایا اور فرمایا: ”لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، آگاہ ہو جاؤ! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سرخ رنگ والے کو کالے رنگ والے پر اور کسی سیاہ رنگ والے کو سرخ رنگ والے پر کوئی فضیلت و برتری حاصل نہیں، مگر تقویٰ کے ساتھ، جیسا کہ ارشاد باری تعالىٰ ہے: ”اللہ تعالىٰ کے ہاں تم میں سے وہ شخص سب سے زیادہ معزز ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے“، خبردار! کیا میں نے (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا ہے؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں۔ پھر فرمایا: ”حاضر لوگ یہ باتیں غائب لوگوں تک پہنچا دیں۔“ (بخاری)

مساوات کی تعلیم دینے والی یہ حدیث اور اس طرح کی دوسری اسلامی تعلیمات ہمیں یہ پیغام دیتی ہیں کہ بحیثیت انسان سب برابر ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم لوگ اپنی فکر اور سوچ کے اعتبار سے اس کی الگ الگ توضیح کرتے ہیں؛ چنانچہ ایک جماعت کی یہ سوچ ہے کہ تمام لوگ بالکل برابر ہیں چاہے وہ پڑھے لکھے ہوں یا جاہل، امیر ہوں یا غریب، دیندار ہوں یا غیر دیندار۔ یہ سوچ و فکر حقیقت میں مقاصد شریعت کو نہ سمجھنے کی واضح دلیل ہے؛ کیونکہ مذکورہ حدیث کے اخیر ہی میں اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں ہے،ہاں اگر کوئی متقی اور پرہیزگار ہے تو اس کو غیر متقی پر فضیلت حاصل ہے۔ اسی طرح سے اگر ہر شخص ہر اعتبار سے برابر ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی یہ ارشاد نہیں فرماتے:"اپنے سردار کے لیئے کھڑے ہوجاؤ۔" (ابو داؤد)

ہمارے درمیان ایک دوسرا طبقہ وہ ہے جن کی نظر میں لائق فائق اور باعث فضیلت صرف وہ حضرات ہیں جو مال و دولت، عہدہ اور اثر و رسوخ والے ہیں بقیہ تمام لوگ کمتر ہیں چاہے ان کے اندر مختلف قسم کی خصوصیات موجود ہوں۔ یہ ذہنیت دراصل مرعوبیت کی پیداوار ہے جسکا اسلام کی روح سے کوئی تعلق نہیں ہے۔حالانکہ محض مال و دولت وجہ فضیلت ہوتی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کبھی خلیفہ نہ بنتے کیونکہ آپ پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے۔چنانچہ ایک مرتبہ ملکِ شام کے سفرمیں ایلہ کے مقام پر پہنچے تو طویل سفر کے سبب بدن پر موجود قمیص پیچھے سے پھٹ گئی تھی آپ  رضی اللہُ عنہ  نے وہاں کے حاکم کو اپنی قمیص دھلوانے اور پیوند لگانے کےلئے دے دی ، حاکم نے پیوند لگا کے اسے دھلوادیا اور ساتھ ہی اُس جیسی ایک نئی قمیص بھی بنوا کر آپ کی خدمت میں بطورِ تحفہ پیش کردی۔ آپ نے نئی قمیص کو دیکھا ، اس پر ہاتھ پھیرا اور اپنی وہی پیوند والی پرانی قمیص پہن لی اور فرمایا : میری یہ قمیص تمہاری قمیص کے مقابلے میں زیادہ پسینہ چوسنے والی ہے۔(تاریخ الرسل والملوک)

افراط و تفریط پر مبنی مذکورہ دونوں سوچ و فکر کے برخلاف ہمیں ایک متوازن زاویہ نظر اختیار کرنے کی ضرورت ہے جہاں ہم تمام انسانوں کو بحیثیت انسان ایک سمجھیں لیکن علم و فضل، دینداری و پرہیز گاری اور مناصب و عہدوں کو جائز حد تک باعث فضیلت بھی سمجھیں۔ اس فرق مراتب کو سمجھنے سے جہاں ہم مہذب کہلائیں گے و ہیں ہمارے معاشرے کا وقار بھی کافی بلند ہوگا۔ یہی اصول ہمیں نبی اکرم صلی اللہ نے صاف لفظوں میں سمجھا دیا ہے: " لوگوں سے ان کے مراتب کے حساب سے برتاؤ کرو۔"(ابوداؤد)

Note: