Thursday, March 27, 2025 | 1446 رمضان 27
Feature

مادر علمی مرکزالمعارف کی آغوش میں

Travelogue

سفر ممبئی کے یادگار نقوش
 
مادر علمی مرکزالمعارف کی آغوش میں
 
اظہارالحق قاسمی بستوی
 
31/دسمبر کی صبح میں نےمرکزالمعارف  کے اپنے استاذ مفتی  جسیم الدین صاحب قاسمی کو میسیج کرکے پوچھا کہ وہ مرکز میں ہیں یا نہیں؟ دراصل لاک ڈاؤن کی وجہ سے کئی اساتذہ  ابھی تک اپنے گھروں پر تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ہیں تو مگر صبح کے وقت میں وہ صفہ اسکول ممبئی میں اسکول ٹیچروں کی انگریزی ٹریننگ کے لیے جاتے ہیں اور وہ ڈھائی تین  بجے مرکز واپس لوٹتے ہیں۔میں نے جسیم سر سے مرکز میں موجوددیگر اساتذہ کے بارے میں بھی معلوم کیا کہ کون ہیں اور کون نہیں ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ مولانابرہان الدین صاحب اور مولاناعتیق الرحمن صاحب موجود ہیں اور دیگر اساتذہ : مولانامدثر احمد صاحب قاسمی ، مولانااسلم جاوید صاحب قاسمی اور پروفیسر احمد کمال خسرو وغیرہ اپنے وطن میں ہیں۔ 
مفتی اظہارالحق قاسمی بستوی
 
خیر میں نے ارادہ کیا کہ مرکز کے مدیر و ڈائریکٹراور اپنے استاذ مولانابرہان صاحب ، مینیجر مولاناعتیق صاحب اور مفتی جسیم صاحب سے ملاقات  کے لیے حاضر ہوجاؤں۔ جسیم سر نے تین بجے کا وقت دے ہی دیا تھا۔ میں نے عتیق سر اور برہان سر کو بھی میسیج کردیا کہ میں ظہر میں مرکز میں حاضر ہو رہا ہوں۔ دونوں حضرات نے استقبالیہ الفاظ کے ساتھ جواب دیا۔چناں چہ میں ساڑھے  بارہ بجے سائن سے جوگیشوری کے لیے بذریعہ ٹیکسی روانہ ہوگیا۔
 
مرکزالمعارف کی دہلیز پر
 
جب میں نے مرکزالمعارف  کی دہلیز پر قدم رکھا تو ٹھیک ڈیڑھ بج رہے تھے اور  مسجد ِمرکزسے اقامت ظہر کی صدائیں بلند ہونا شروع ہوگئیں۔ غیر اختیاری طور پر مڑ کر دور مین دروازے کی طرف دیکھاتو استاذ محترم مولانابرہان الدین صاحب  قاسمی احاطےمیں داخل ہو رہے تھے۔ انھیں دیکھ کر میں بے اختیار ان کی طرف بڑھ گیا اور سلام کرکے مصافحے کےلیے میں نے ہاتھ آگے بڑھایا۔ان کی طرف سے کسی گرم جوشی کو نہ پاکرمیں ہاتھ پھیلائے ہوئےمزید قریب ہواتو انھوں نے اپنا ہاتھ کھینچتے ہوئے  فرمایاکہ: ہم مصافحہ نہیں کرتے؛ (یہ کرونا وائریس کے مدنظر احتیاطی کے طورپر ناگزیر سمجھاجاتاتھا) جس کے باعث میں قدرے جھینپ کر رہ گیا ۔   دریافت احوال کے ساتھ ہم دونوں مسجد کی طرف لپکے اور ظہر کی جماعت میں شامل ہوگئے۔
 
مرکزالمعارف آئینہ ایام میں
 
مرکز المعارف  اب محتاج تعارف نہیں ؛ کیوں کہ اس کے فضلاء نہ صرف ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں؛ بل کہ دنیا بھر میں مختلف دینی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اب سارا جہاں اس کے کارناموں  کا شاہدومعترف ہےمگرگاہے گاہے بازخواں کے اعتبارسے عرض  ہےکہ مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کا قیام 1994 میں دہلی کے اندر ہواجس کا مقصد ملک ودنیا کی رائج زبان انگریزی سے علماکو لیس کرکےزندگی کے مختلف میدانوں میں رجال کارکافراہم کرنا تھا اور خدا کا شکر ہے کہ مرکز نے ملک و ملت کی اس ضرورت کو اچھی طرح پورا کیاہے۔مرکزالمعارف کاقیام اور آج تک اس کا انتظام و انصرام دراصل حضرت مولانابدرالدین اجمل صاحب کاایک عظیم اور قابل ذکر کارنامہ ہے جس کو انھوں اپنے پیر ومرشد حضرت مولانا سید اسعد مدنی رح کے ایماء پر قائم کیا تھا۔ سال 2019 میں مرکز نے پچیس سالہ تعلیمی سفر کی تکمیل کی مناسبت سے دہلی میں عظیم الشان سلورجوبلی منعقد کیا تھا۔ 
مرکزالمعارف اگرچہ دہلی میں قائم ہواتھا مگر چند سالوں کے بعد وہ ممبئی منتقل کردیا گیاجہاں سے ایک بار پھر دہلی منتقل ہوکر دوبارہ ممبئی منتقل ہوا اور اب مستقل وہیں پرہے۔ ممبئی منتقلی کے بعد مرکزالمعارف کئی سالوں تک قلب ممبئی میں واقع صابوصدیق مسافر خانے میں تھا جو طلبہء مرکز کے حسین ترین ایام تھے۔ مرکزالمعارف،ممبئی کے روح رواں مولانابرہان الدین صاحب ہیں۔ 
 
موجودہ مرکزالمعارف
 
جوگیشوری ویسٹ کے پاٹلی پُترا نگر میں واقع مرکزالمعارف دوبوسیدہ بڑےکمروں، مسجد سے ملحق ایک ہال، ایک آفس  اور ایک زبوں حال مطبخ کا نام ہے ۔ ان دونوں کمروں میں کل پچیس سے تیس طلبہ مقیم رہتے ہیں جس کے ابتدائی دنوں کے طلبہ کی جدوجہد کی ایک عظیم تاریخ ہے۔ اگراس وقت کے طلبہ کی اولوالعزمی نہ ہوتی تو شاید ایسی جگہ رہ کر موجودہ زمانے میں تعلیم حاصل کرنا امرمحال ہوتا۔ اسی جگہ ہماری بیچ2011-2013 نے بھی تعلیم حاصل کی۔ یہاں ہر روزروزمجاہدہ اور ہرشب شبِ آزردہ تھی۔ مسجد سے متصل ہال  درسگاہ ہے جس کو تین طرف سے عارضی حصار لگاکر درسگاہ کی شکل دی جاتی ہے۔ اوپر کی چھت پورے مرکز میں سیمنٹ والی شیڈ ہے جس کی وجہ سے گرمیوں میں طلبہ کا پورا وجود جل اٹھتا تھا اور اوپر سے نیچے تک پسینہ کی آمدو رفت رہتی۔ ہمارے زمانے میں طرہ یہ تھا کہ ہمیں پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے مزید کرب سے گزرنا ہوتا تھا۔   
مولانا مدثر احمد قاسمی 
 
مرکز المعارف  کی یہ صورت حال اس قانونی مشکل کی وجہ سے ہے جس کے سبب  اہل مرکزایک خشت تعمیر رکھنے سے معذور ہیں۔ سبب یہ ہے کہ مرکزالمعارف مسجد اور سینٹر دونوں ایک کیمپس میں واقع ہیں اور دونوں کے سامنے ایک وسیع وعریض اراضی ہے جس پر ملکیت کا اختلاف ہے ۔ اس زمین پر اسٹے ہونے کی وجہ سے کوئی بھی کام کرانا بی ایم سی (بمبئی میونسپل کارپوریشن) کی طرف سے ممنوع ہے، نیز اس جگہ سے مرکز والوں کا ہٹنا بھی مناسب نہیں کہ اس میں نری پسپائی اور اپنے حق سے دست برداری ہے؛اسی وجہ سے وہاں  کے طلبہ کو خصوصا گرمیوں میں شدید مجاہدے سے گزرنا ہوتاہے۔
 
مولانامحمداسلم جاوید قاسمی
مذکورہ بالا ظاہری ہیئت کے باوجود مرکزالمعارف نے معیار تعلیم کو برقرار رکھنے اوررجال سازی میں وہ کارنامہ انجام دیا ہے جس کا ایک زمانہ معترف ہے۔ مرکزالمعارف کے طلبہ میں اعتماد و ثقہ بالنفس پیداکرنے پرخاص توجہ دی جاتی ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ مرکز کے فضلاء دنیا کے کسی بھی میدان میں جائیں مگر وہ متاثر نہیں ہوتے اور نہ ہی اپنی شناخت بدلتے ہیں الاماشاء اللہ ۔مرکز کی اس پرمشقت زندگی کو وہاں پڑھنے والے طلبہ اپنی تربیت اور ٹریننگ کا حصہ سمجھتے ہیں اور خوشی بخوشی جھیل جاتے ہیں۔
 
مرکزکی آفس میں
 
نماز ظہرسے فراغت کے بعد امام مسجد مولانامحمد شاہد صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جو ہمارے ہم وطن بھی ہیں اور ہم مزاج و خوش مزاج بھی۔اسی درمیان مولاناعتیق صاحب بھی مسجد سے باہر نکلے اور ہم مولاناکی طرف لپکے۔ مولانا نے آگے بڑھ کر مصافحہ کیا اور معانقہ بھی۔ اس کے بعد ہم لوگ مسجد سے متصل آفس میں چلے گئے اور مولانابرہان صاحب کے چیمبر میں بیٹھے۔ حال احوال اور مقصد سفر کے بیان کے ساتھ  کچھ دیر گفتگو رہی اور پھرمولانابرہان صاحب  کی ایک گھنٹے کی ایک آن لائن کلاس  تھی جس میں وہ مصروف ہوگئے اور ہم اٹھ  کر آفس کے دوسرے حصے میں بیٹھے مولاناعتیق الرحمن صاحب کی خدمت میں پہونچ گئے۔
 
نگہ بلندانسان 
 
سال 2009 جو دارالعلوم دیوبند میں ہمارے دورہ حدیث کا سال تھااس سال ہم نے مرکزالمعارف کا داخلہ امتحان دیا اور اسی وقت آخری امتحان یعنی شخصی انٹرویوکے لیے مولانابرہان الدین صاحب کا پہلی بار سامنا ہوا۔ بارعب چہرہ، ملاحت آمیز بشرہ، گفتگو کالہجہ صاف مگر اردو میں قدرے لڑکھڑاہٹ۔ مولانا نے مختصر گفت وشنید کے بعد فرمایا کہ اگر نمبراچھا آیاتو کیا ارادہ ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ ادب کا، انھوں نے حوصلہ افزائی کی اور ہوا بھی وہی کہ نمبرٹھیک آیا تو ادب پڑھا اور پھر اگلے سال افتا پڑھ کر دوسال بعد پھر مرکزالمعارف کے داخلہ امتحان میں شریک ہوا اورپہلی پوزیشن کے ساتھ مرکزالمعارف میں داخل ہوا۔