Friday, April 19, 2024 | 1445 شوال 10
Feature

مادر علمی مرکزالمعارف کی آغوش میں

Travelogue

سفر ممبئی کے یادگار نقوش
 
مادر علمی مرکزالمعارف کی آغوش میں
 
اظہارالحق قاسمی بستوی
 
31/دسمبر کی صبح میں نےمرکزالمعارف  کے اپنے استاذ مفتی  جسیم الدین صاحب قاسمی کو میسیج کرکے پوچھا کہ وہ مرکز میں ہیں یا نہیں؟ دراصل لاک ڈاؤن کی وجہ سے کئی اساتذہ  ابھی تک اپنے گھروں پر تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ہیں تو مگر صبح کے وقت میں وہ صفہ اسکول ممبئی میں اسکول ٹیچروں کی انگریزی ٹریننگ کے لیے جاتے ہیں اور وہ ڈھائی تین  بجے مرکز واپس لوٹتے ہیں۔میں نے جسیم سر سے مرکز میں موجوددیگر اساتذہ کے بارے میں بھی معلوم کیا کہ کون ہیں اور کون نہیں ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ مولانابرہان الدین صاحب اور مولاناعتیق الرحمن صاحب موجود ہیں اور دیگر اساتذہ : مولانامدثر احمد صاحب قاسمی ، مولانااسلم جاوید صاحب قاسمی اور پروفیسر احمد کمال خسرو وغیرہ اپنے وطن میں ہیں۔ 
مفتی اظہارالحق قاسمی بستوی
 
خیر میں نے ارادہ کیا کہ مرکز کے مدیر و ڈائریکٹراور اپنے استاذ مولانابرہان صاحب ، مینیجر مولاناعتیق صاحب اور مفتی جسیم صاحب سے ملاقات  کے لیے حاضر ہوجاؤں۔ جسیم سر نے تین بجے کا وقت دے ہی دیا تھا۔ میں نے عتیق سر اور برہان سر کو بھی میسیج کردیا کہ میں ظہر میں مرکز میں حاضر ہو رہا ہوں۔ دونوں حضرات نے استقبالیہ الفاظ کے ساتھ جواب دیا۔چناں چہ میں ساڑھے  بارہ بجے سائن سے جوگیشوری کے لیے بذریعہ ٹیکسی روانہ ہوگیا۔
 
مرکزالمعارف کی دہلیز پر
 
جب میں نے مرکزالمعارف  کی دہلیز پر قدم رکھا تو ٹھیک ڈیڑھ بج رہے تھے اور  مسجد ِمرکزسے اقامت ظہر کی صدائیں بلند ہونا شروع ہوگئیں۔ غیر اختیاری طور پر مڑ کر دور مین دروازے کی طرف دیکھاتو استاذ محترم مولانابرہان الدین صاحب  قاسمی احاطےمیں داخل ہو رہے تھے۔ انھیں دیکھ کر میں بے اختیار ان کی طرف بڑھ گیا اور سلام کرکے مصافحے کےلیے میں نے ہاتھ آگے بڑھایا۔ان کی طرف سے کسی گرم جوشی کو نہ پاکرمیں ہاتھ پھیلائے ہوئےمزید قریب ہواتو انھوں نے اپنا ہاتھ کھینچتے ہوئے  فرمایاکہ: ہم مصافحہ نہیں کرتے؛ (یہ کرونا وائریس کے مدنظر احتیاطی کے طورپر ناگزیر سمجھاجاتاتھا) جس کے باعث میں قدرے جھینپ کر رہ گیا ۔   دریافت احوال کے ساتھ ہم دونوں مسجد کی طرف لپکے اور ظہر کی جماعت میں شامل ہوگئے۔
 
مرکزالمعارف آئینہ ایام میں
 
مرکز المعارف  اب محتاج تعارف نہیں ؛ کیوں کہ اس کے فضلاء نہ صرف ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں؛ بل کہ دنیا بھر میں مختلف دینی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اب سارا جہاں اس کے کارناموں  کا شاہدومعترف ہےمگرگاہے گاہے بازخواں کے اعتبارسے عرض  ہےکہ مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر کا قیام 1994 میں دہلی کے اندر ہواجس کا مقصد ملک ودنیا کی رائج زبان انگریزی سے علماکو لیس کرکےزندگی کے مختلف میدانوں میں رجال کارکافراہم کرنا تھا اور خدا کا شکر ہے کہ مرکز نے ملک و ملت کی اس ضرورت کو اچھی طرح پورا کیاہے۔مرکزالمعارف کاقیام اور آج تک اس کا انتظام و انصرام دراصل حضرت مولانابدرالدین اجمل صاحب کاایک عظیم اور قابل ذکر کارنامہ ہے جس کو انھوں اپنے پیر ومرشد حضرت مولانا سید اسعد مدنی رح کے ایماء پر قائم کیا تھا۔ سال 2019 میں مرکز نے پچیس سالہ تعلیمی سفر کی تکمیل کی مناسبت سے دہلی میں عظیم الشان سلورجوبلی منعقد کیا تھا۔ 
مرکزالمعارف اگرچہ دہلی میں قائم ہواتھا مگر چند سالوں کے بعد وہ ممبئی منتقل کردیا گیاجہاں سے ایک بار پھر دہلی منتقل ہوکر دوبارہ ممبئی منتقل ہوا اور اب مستقل وہیں پرہے۔ ممبئی منتقلی کے بعد مرکزالمعارف کئی سالوں تک قلب ممبئی میں واقع صابوصدیق مسافر خانے میں تھا جو طلبہء مرکز کے حسین ترین ایام تھے۔ مرکزالمعارف،ممبئی کے روح رواں مولانابرہان الدین صاحب ہیں۔ 
 
موجودہ مرکزالمعارف
 
جوگیشوری ویسٹ کے پاٹلی پُترا نگر میں واقع مرکزالمعارف دوبوسیدہ بڑےکمروں، مسجد سے ملحق ایک ہال، ایک آفس  اور ایک زبوں حال مطبخ کا نام ہے ۔ ان دونوں کمروں میں کل پچیس سے تیس طلبہ مقیم رہتے ہیں جس کے ابتدائی دنوں کے طلبہ کی جدوجہد کی ایک عظیم تاریخ ہے۔ اگراس وقت کے طلبہ کی اولوالعزمی نہ ہوتی تو شاید ایسی جگہ رہ کر موجودہ زمانے میں تعلیم حاصل کرنا امرمحال ہوتا۔ اسی جگہ ہماری بیچ2011-2013 نے بھی تعلیم حاصل کی۔ یہاں ہر روزروزمجاہدہ اور ہرشب شبِ آزردہ تھی۔ مسجد سے متصل ہال  درسگاہ ہے جس کو تین طرف سے عارضی حصار لگاکر درسگاہ کی شکل دی جاتی ہے۔ اوپر کی چھت پورے مرکز میں سیمنٹ والی شیڈ ہے جس کی وجہ سے گرمیوں میں طلبہ کا پورا وجود جل اٹھتا تھا اور اوپر سے نیچے تک پسینہ کی آمدو رفت رہتی۔ ہمارے زمانے میں طرہ یہ تھا کہ ہمیں پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے مزید کرب سے گزرنا ہوتا تھا۔   
مولانا مدثر احمد قاسمی 
 
مرکز المعارف  کی یہ صورت حال اس قانونی مشکل کی وجہ سے ہے جس کے سبب  اہل مرکزایک خشت تعمیر رکھنے سے معذور ہیں۔ سبب یہ ہے کہ مرکزالمعارف مسجد اور سینٹر دونوں ایک کیمپس میں واقع ہیں اور دونوں کے سامنے ایک وسیع وعریض اراضی ہے جس پر ملکیت کا اختلاف ہے ۔ اس زمین پر اسٹے ہونے کی وجہ سے کوئی بھی کام کرانا بی ایم سی (بمبئی میونسپل کارپوریشن) کی طرف سے ممنوع ہے، نیز اس جگہ سے مرکز والوں کا ہٹنا بھی مناسب نہیں کہ اس میں نری پسپائی اور اپنے حق سے دست برداری ہے؛اسی وجہ سے وہاں  کے طلبہ کو خصوصا گرمیوں میں شدید مجاہدے سے گزرنا ہوتاہے۔
 
مولانامحمداسلم جاوید قاسمی
مذکورہ بالا ظاہری ہیئت کے باوجود مرکزالمعارف نے معیار تعلیم کو برقرار رکھنے اوررجال سازی میں وہ کارنامہ انجام دیا ہے جس کا ایک زمانہ معترف ہے۔ مرکزالمعارف کے طلبہ میں اعتماد و ثقہ بالنفس پیداکرنے پرخاص توجہ دی جاتی ہے، جس کا نتیجہ ہے کہ مرکز کے فضلاء دنیا کے کسی بھی میدان میں جائیں مگر وہ متاثر نہیں ہوتے اور نہ ہی اپنی شناخت بدلتے ہیں الاماشاء اللہ ۔مرکز کی اس پرمشقت زندگی کو وہاں پڑھنے والے طلبہ اپنی تربیت اور ٹریننگ کا حصہ سمجھتے ہیں اور خوشی بخوشی جھیل جاتے ہیں۔
 
مرکزکی آفس میں
 
نماز ظہرسے فراغت کے بعد امام مسجد مولانامحمد شاہد صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جو ہمارے ہم وطن بھی ہیں اور ہم مزاج و خوش مزاج بھی۔اسی درمیان مولاناعتیق صاحب بھی مسجد سے باہر نکلے اور ہم مولاناکی طرف لپکے۔ مولانا نے آگے بڑھ کر مصافحہ کیا اور معانقہ بھی۔ اس کے بعد ہم لوگ مسجد سے متصل آفس میں چلے گئے اور مولانابرہان صاحب کے چیمبر میں بیٹھے۔ حال احوال اور مقصد سفر کے بیان کے ساتھ  کچھ دیر گفتگو رہی اور پھرمولانابرہان صاحب  کی ایک گھنٹے کی ایک آن لائن کلاس  تھی جس میں وہ مصروف ہوگئے اور ہم اٹھ  کر آفس کے دوسرے حصے میں بیٹھے مولاناعتیق الرحمن صاحب کی خدمت میں پہونچ گئے۔
 
نگہ بلندانسان 
 
سال 2009 جو دارالعلوم دیوبند میں ہمارے دورہ حدیث کا سال تھااس سال ہم نے مرکزالمعارف کا داخلہ امتحان دیا اور اسی وقت آخری امتحان یعنی شخصی انٹرویوکے لیے مولانابرہان الدین صاحب کا پہلی بار سامنا ہوا۔ بارعب چہرہ، ملاحت آمیز بشرہ، گفتگو کالہجہ صاف مگر اردو میں قدرے لڑکھڑاہٹ۔ مولانا نے مختصر گفت وشنید کے بعد فرمایا کہ اگر نمبراچھا آیاتو کیا ارادہ ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ ادب کا، انھوں نے حوصلہ افزائی کی اور ہوا بھی وہی کہ نمبرٹھیک آیا تو ادب پڑھا اور پھر اگلے سال افتا پڑھ کر دوسال بعد پھر مرکزالمعارف کے داخلہ امتحان میں شریک ہوا اورپہلی پوزیشن کے ساتھ مرکزالمعارف میں داخل ہوا۔
مولانا محمد برہان الدین قاسمی 
مولانابرہان صاحب کا آبائی وطن آسام ہے لیکن اب وہ ممبئی کے شہری ہیں۔عمر پچاس سال کے آس پاس ہے۔  مولانابرہان صاحب کی علمی اور فکری جہتیں کافی وسیع ہیں۔وہ ایک بہترین انگریزی قلم کار، مرکزسے نکلنےوالے انگریزی ماہنامہ ایسٹرن کریسنٹ کے ایڈیٹر، ایک اچھے ڈبیٹراور شخصیت ساز انسان ہیں۔ تقابل ادیان پر مولانا کا علم و مطالعہ گہر اہے جسے وہ  مرکز کے سال دوم کے طلبہ کو پڑھاتے بھی ہیں۔ حالات حاضرہ پر ان کی نظر مثل عقاب کے ہے۔ ہر موضوع پر ان کا تبصرہ نہایت معیاری اور جچا تلا رہتاہے جس سے ٹرول آرمی خاصی پریشان رہتی ہے اور مولانا پر ہفوات کی بھرمار کرتی ہے مگر مولانا اس سے بے نیاز ہوکر اگلا برموقع تبصرہ جڑ دیتے ہیں۔مرکزالمعارف مولانا موصوف کی قیادت میں معیاری تعلیم وتربیت کی راہ پر گامزن ہے۔وہ ممبئی کی معروف علمی اور سماجی شخصیت ہیں اور سوشل میڈیا پر اپنے نپے تلے اور برمحل تبصرے کے لیے اپنوں اور غیروں سب میں خوب جانے جاتےہیں۔
 
 
مولاناعتیق صاحب کی خدمت میں
مولانابرہان صاحب کے پاس سے اٹھ کر ہم جوں ہی مولاناعتیق الرحمن صاحب کے پاس پہونچے تو  انھوں نے والہانہ فرمایا: اور کیا حال ہے مولانابستوی صاحب! یہ مولانا کا فطری انداز ہے جو بہت دلآویز محسوس ہوتاہے۔اسی اثنا میں چائے آگئی اور ہم نے چائے نوشی کی لیکن مولانانے چائے نہیں پی۔
مولانا محمد عتیق الرحمٰن قاسمی
مرکزکا مرد دانا و درویش
 
مسکراتے لب، خندہ پیشانی، چہرےپربزرگی کے آثار ہویدا، لبوں پر ذکرالہی کے اوراد، خوب صورت کتابی چہرہ، عمر پانچویں دہائی کے اختتام پر، یہ ہیں مولاناعتیق صاحب جو ممبئی مرکز کے افراح و احزان کی چلتی  پھرتی تصویر ہیں۔ مولانا کاعلمی معیار تو بلندہے ہی لیکن اخلاق و کردار اور تقوی و انابت الی اللہ میں بھی بے مثال ہیں۔
مجھے یاد آیا کہ آج سے آٹھ دس سال قبل جب ہم مرکز کے طالب علم تھے مولانا کے گھر کی اس وقت کی دوری بھی ایک کلو میٹر سے کم نہ رہی ہوگی ۔ مولانا وہاں سے آتے اور ہم طلبہ کو نماز فجر کے لیے بیدار کرتے اور سب لوگ مولانا کی برکت سے باجماعت نماز ادا کرتے ۔ پھر بعد فجر مارننگ اسمبلی ہوتی جس میں بھی مولاناتشریف رکھتے۔ مجھے اب حیرت ہوتی ہے کہ جن کے گھروں سے مسجد کی دوری آدھا کلو میٹر ہو ان کا بھی جماعت میں پہونچنا دشوار ہوتا ہے مگر مولانا اتنی دور سے کیسے پیدل چلے آتے تھے! اللہ تعالی مولانا کو شاد وآباد رکھے۔
 
اس ملاقات کے موقعے پر بھی جب چائے پیش کی گئی  تو مولانانے مسکر اکر معذرت کرلی اور فرمایاکہ آج میں روزے سے ہوں اور میری بیٹی نے بھی روزہ رکھا ہے ۔ دراصل وہ بیض کے ایام تھے۔ ایام بیض کے روزوں کی فضیلت ہم بھی جانتے ہیں اور بہتیرے لوگ جانتے ہیں مگر اس کا اہتمام نہایت شاذ ہے طبقہ خواص میں بھی۔مگر مولاناکا اہتمام دیکھ کر رشک پیدا ہوا اور ان کی بیٹی نے بھی وہ روزہ رکھا جو دیگر لوگوں کے لیے درس عبرت ہے۔
 
مولانا کے مزاج وزبان میں وہ شگفتگی ہے کہ اس کی لطافت سامع کو  فورا محسوس ہوجاتی ہے۔ وہ غصے میں بھی بہت پیارے لگتے ہیں۔مولاناکی برجستہ گوئی اور زبان و بیان کی بے ساختگی معروف ہے خصوصاً مرکز کے فضلاء مولانا کی زبان وبیان کے شیدائی ہوتے ہیں۔"یہ نہیں چل پائے گا بھائی" مولانا کا تکیہ کلام ہے جو ہم لوگ بھی کبھی کبھی بالارادہ استعمال کرتے ہیں اور مولانا کو یاد کرکے محظوظ ہوتے ہیں۔
 
مولانا عتیق صاحب کی ایک درخواست
 
دوران گفتگو مولانا نے فرمایا کہ ہم (وہ اور ان کے ساتھ ان کا ایک بڑا حلقہ خواص) پیام انسانیت کے نام سے روزانہ ایک کوئی اچھا اور خوبصورت پیغام شائع کرتے ہیں جس میں کبھی احادیث کو رکھتے ہیں اور کبھی دیگر اچھی چیزیں۔ پھر اردو ہندی اور انگریزی میں ایک پیغامچہ بنا کر انھیں شائع کرکے ہزاروں اپنوں اور غیروں تک پہونچاتے ہیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں کو اسلام کے تئیں صاف کیا جا سکے۔ نیز انھوں نے فرمایا کہ اگر آپ بھی کچھ اچھے پیغامات تیار کرکے ہمیں دے دیں تو ہم کو بھی قدرے آسانی ہوگی اور اس کار خیر میں آپ کا بھی حصہ ہوگا۔ مولانا کی اس درخواست پر اب تک عمل نہیں کر سکا ہوں لیکن ہو سکا تو ضرور کروں گا ان شاءاللہ۔
 
ہم مولاناعتیق صاحب کے ساتھ باتوں میں محو تھے کہ مولانا برہان صاحب موبائل سوئچ آف ہوجانے کی وجہ سےاپنی کلاس منقطع  کرکے مولاناعتیق صاحب کی نشست گاہ تک آئے اور پھر ہم دونوں ظہرانے کے لیے مطبخ گئے اوروہاں کھانا کھایا۔
تین بجے کے آس پاس مفتی جسیم الدین صاحب واپس آگئے اور ان سے بھی ملاقات رہی۔ مفتی صاحب جوان العمر، نیک طبیعت اور گوناگوں صلاحیت سے بھر پور شخصیت ہیں اور ممبئی کے علمی حلقوں میں باوقار شہرت کے حامل ہیں۔ زبان وقلم دونوں سے استوار رشتہ رکھتے ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف  اور مرکزالمعارف کے دارالافتاء کے مفتی بھی ہیں۔ ہم نے مرکزالمعارف کے دونوں سالوں میں مفتی صاحب سے اردو۔انگریزی ترجمہ نگاری کا گھنٹہ پڑھا تھا۔
مفتی جسیم الدین قاسمی
آخری نشست 
اس کے بعددوبارہ مولانا عتیق صاحب کے ساتھ ہم نشینی رہی اور مولانابرہان الدین صاحب کی تازہ ترین کتاب "شارٹ انگلش لرننگ کورس" پر قدرے تبصرہ بازی ہوئی جس کی پرنٹنگ قیمت پانچ سو روپئے رکھی گئی ہے جس کے بارے میں ہمارا خیال تھا کہ دوسو کے آس پاس قیمت ہونی چاہیے۔اس پر مولانابرہان صاحب نے فرمایا کہ دو سو بھی کوئی قیمت ہوتی ہے؟ خیر اس کے بعد مولانا برہان صاحب نے اس کا ایک نسخہ اس ناچیز کو ہدیے میں دیا۔
کتا ب اچھی اور فائدے مند ہے۔انگریزی حروف شناس لوگوں کے لیےکتاب مفید تر ہے اس لیے لوگوں کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔بعد ازاں عصر کی اذان ہوگئی اور نماز کے بعد چائے نوشی اور معاً بعد واپسی طے پائی۔ 
 
واپسی
اس کے بعد مولانابرہان صاحب، مفتی جسیم صاحب  اور میں واپسی کے لیے نکلے۔ تھوڑی دیرمیں مولانابرہان صاحب کا آشیانہ آگیا وہ رخصت ہوگئے۔ 
مفتی جسیم صاحب نے فرمایا کہ میں نے ایک چھوٹی موٹی تجارت شروع کی ہے اور بچوں سے متعلق اشیاء کی ایک دوکان کھولی ہے وہاں چلیں۔  مفتی صاحب اور میں آٹو میں سوار ہوکرگلشن نگر جوگیشوری میں واقع مفتی صاحب کی دوکان پر پہونچے جہاں انھوں نے ایک چھوٹا سردی کا جوتا میری نوزائیدہ دختر کے لیے تحفے میں دیا(اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کو خوب خوب برکتوں سے نوازے) اور پھر علیک سلیک کے ساتھ ہم اسی آٹو میں بہت سی محبتیں اور یادیں لے کر اپنی منزل باندرہ کی طرف روانہ ہوگئے جہاں ایک دوست مولانا جاوید صاحب قاسمی منتظر تھے۔
 

 

Note: