بچوں کی تعلیم کو مؤخر کرنا شریعت کی نظر میں بھی درست نہیں ہے!
زیر نظر مضمون میں یہ تحقیق پیش کی گئی ہے کہ دینی و دنیوی دونوں اعتبار سے با ضابطہ تعلیم شروع کرنے کی اوسط عمر پانچ سال ہے
مدثر احمد قاسمی
مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر، روزنامہ انقلاب، ممبئی کے ڈیلی کالم نگار، مرکزالمعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر، ممبئی کے ڈی ای ایل ایل کورس کے نیشنل کو آرڈینیٹر اور الغزالی انٹر نیشنل اسکول،ا رریہ کے بانی ڈائریکٹر ہیں۔
تعلیم بچوں کا حق ہے۔ اس حق کو روئے زمین پر بسنے والی تمام قومیں تسلیم کرتی ہیں۔مسلمانوں کے پاس بھی اس حق کو تسلیم کرنے کے باب میں بے شمار عقلی و نقلی دلائل موجود ہیں۔قرآن مجید اس حوالے سے مشعل راہ ہے کیونکہ اس مقدس کتاب میں کم و بیش ساڑھے سات سو جگہوں پر بلا واسطہ یا با الواسطہ علم کا ذکر ہے۔اس حوالے سے جو آیتیں زیادہ حوالے کے طور پر پیش کی جاتی ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:
(1) پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے سب کو پیدا کیا۔ پیدا کیا اس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے۔ پڑھ ، تیرارب بڑا کریم ہے۔ جس نے سکھایا علم قلم کے ذریعے۔ اس چیز کا علم دیا انسان کو جو وہ نہیں جانتا۔ (العلق1-5)
(2)تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جن کو علم عطا ہواہے ،اللہ اس کے درجات بلند فرمائے گا اورجو عمل تم کرتے ہو اس سے اللہ باخبر ہے۔(المجادلہ11)
(3)اے نبی،کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل) برابر ہوسکتے ہیں۔نصیحت تو وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔(الزمر:9)
جہاں تک عقلی دلائل کی بات ہے تو اس کے لیئے صرف اتنا کافی ہے کہ جب مسلمانوں نے قرآن اور پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم)کی ہدایت پر تعلیم و تعلم سے اپنا رشتہ جوڑا تو وہ ترقی کے بام عروج پر پہونچے اور دنیا کی رہنمائی کی اور جب تعلیم و تعلم سے ان کا رشتہ کمزور ہوا تو وہ تنزلی کے آخری زینے پر پہونچ گئے اور قیادت کی باگ ڈور بھی ان کے ہاتھوں سے نکل گئی۔
اس تمہید کے آئینے میں ہمیں آج جس نقطے پر بحث کرنی ہے وہ یہ ہے کہ تعلیم جیسی اہم چیز کی ابتدا ء بچوں کو کس عمر میں کرنی چاہیئے اور اس حوالے سے ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہیئے۔ اس بحث کی ضرورت اس وجہ سے ہے کہ بیشتر مسلمان گارجین اس تعلق سے ایک عجیب کیفیت سے دو چار ہیں۔اس میں دو طبقے بطور خاص اپنے طرز عمل سے معاشرے کے توازن کو بگاڑ رہے ہیں۔ پہلا طبقہ وہ ہے جو بچوں کے لیئے بالکل بھی تعلیم کو ضروری نہیں سمجھتا جبکہ دوسرا طبقہ وہ ہے جو وقت سے پہلے اور ضرورت سے زیادہ بچوں پر تعلیم کا بوجھ ڈال کر زیادتی کا مرتکب ہو رہا۔
آئیے! اس حوالے سے پہلے عصر حاضر میں بچوں کی تعلیم شروع کرنے کے تعلق سے آرا ءکا ایک سر سری جائزہ لیتے ہیں:
بہت سے ممالک میں رسمی تعلیم چار سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے حق میں اکثر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جلد شروع کرنے سے بچوں کو سیکھنے اور سبقت حاصل کرنے کے لیے زیادہ وقت ملتا ہے۔اس کے بر خلاف ہر کوئی بہت کم عمری میں تعلیم کے آغاز کے حق میں نہیں ہے۔ جرمنی، ایران اور جاپان سمیت بہت سے ممالک میں رسمی تعلیم تقریباً چھ برس کی عمر میں شروع ہوتی ہے۔ فن لینڈ میں، جسے اکثر دنیا کے بہترین تعلیمی نظام والے ملک کے طور پر سراہا جاتا ہے، بچے سات سال کی عمر سے اسکول شروع کرتے ہیں۔ہمارے ملک ہندوستان میں بھی حکومتی گائڈ لائن کے حساب سے ایک کلاس میں بچے کی عمر چھ سال ہونی چاہیئے، اس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم بچہ ابتدائی تعلیم چار سال کی عمر میں شروع کرے۔ عمر کے حوالے سے جب ہم اسلام کی تعلیم کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں وہاں متعینہ کوئی عمر تو نہیں ملتی لیکن زینہ بزینہ الگ الگ رہنمائی ملتی ہے اور ایک جگہ پہونچ کر عمر کا بھی تعین ہو جاتا ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان میں آذان و اقامت کہی جاتی ہے جو ایک معنی میں تعلیم کی ابتداءاور عقیدہ کی بنیاد ہے۔ اس کے بعد جب بچہ بولنے کی ابتدا ء کرتا ہے تو اسلامی تعلیم یہ ہے کہ اسے سب سے پہلے کلمہ سکھایا جائے۔
اس مرحلےکے بعد اسلامی اعتبار سے تعلیم شروع کرنے کی ابتدائی عمر جو نکلتی وہ چار کے بعد اور پانچ کے آس پاس ہے اور وہ اس طرح کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے:”اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو؛ جب کہ وہ سات سال کے ہوجائیں اور ان کو نماز نہ پڑھنے پر مارو؛ جب کہ وہ دس سال کے ہوجائیں“۔ (مشکوٰة) اس حدیث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب بچوں کو نماز سات سال سے پڑھنی ہے تو نماز میں پڑھی جانے والی چیزیں اور خود نماز پہلے سیکھنی ہوگی، جس میں ظاہر ہے کہ ایک دو سال کا وقت لگے گا۔ مذکورہ تمام معروضات سے یہ نکتہ نکل کر سامنے آیا کہ تعلیم شروع کرنے کی اوسط عمر لگ بھگ پانچ سال ہے۔
مذکورہ بحث کے پس منظر میں عمومی طور پر ہمارے لیئے پریشان کن بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اپنے بچوں کی دینی و دنیاوی دونوں تعلیم ایسی عمر (سات آٹھ سال)تک موخر کر رہا جہاں سے تلافی مافات کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔راقم چونکہ دونوں نظام تعلیم سے وابستہ ہے اس وجہ سے یہ تکلیف دہ سچائی تجربے کی بنیاد پربیان کر رہا ہے۔ تحقیق کے بعد اس پریشانی کی دو وجہ ایک غربت اور دوسری لاڈوپیار سامنے آتی ہے؛ جو کہ حقیقتاتعلیم کو موخر کرنے کی وجہ نہیں بننی چاہیئے۔ اس کے علاؤہ بھی کچھ بچوں کی تعلیم کو موخر کرنے کی ایک حیران کن وجہ یہ سامنے آئی ہے کہ ان کے والد بڑے شہروں میں یا بیرون ملک ملازمت کرتے ہیں اور وہ پیسہ کمانے میں اس قدر مصروف ہیں کہ انہیں اپنے بچوں کی تعلیم کی خاطر خواہ فکر نہیں ہے۔ ایسے گار جین کے کچھ بچے تو ایسے بھی سامنے آئے ہیں جو دس بارہ سال کے ہو چکے ہیں اور تعلیم میں صفر ہیں۔
مذکورہ ناگفتہ بہ صورت حال ہی کی وجہ سے ہم قوم و ملت کو وہ سرمایا فراہم نہیں کر پارہے ہیں جو ہماری سر بلندی کا ذریعہ بنے۔ اس صورت حال سے نکلنے کے لیئے ہمیں یہ کرنا ہوگا کہ ہم تعلیم کو محض ایک ضرورت نہ سمجھیں بلکہ اپنی ترجیحات میں شامل کر لیں۔
Note: