مفتی شکیل منصور قاسمی؛ ادھوری سے پونی ملاقات تک
از ـ محمود احمد خاں دریابادی
۹ فروری ۲۰۲۳ ایک بجے شب
سمجھ نہیں آتا کہ اس کو کیاکہیں، ....... ستم ظریفی کہیں، کم نصیبی کہیں یا بد قسمتی، ........... برسوں سے تعارف تھا بلکہ یارانہ تھا، محبت تھی، اگرچہ عشق اور جنون نہیں تھا مگر عقیدت ضرور تھی، اُدھر سے افادہ اِدھر سے استفادہ، یہاں سے طلب وہاں سے عطاء، ......... برسوں گزرگئے اس دوران نہ جانے کتنے " ایسے ویسے کیسے کیسے " اور نہ جانے کتنے " کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے " ............. فون پر بات چیت بلکہ طویل گفتگو، تبادلہ خیالات، برقی ( آن لائن) مجلسیں، مشاعرے، پروگراموں میں ساتھ رہا، مگر ............ مکمل ملاقات نہیں ہوئی تھی ( مکمل اس لئے کہ قدیم بزرگوں نے خط کو آدھی ملاقات قراردیا تھا اور آج کے ایک جدید بزرگ آن لائن گفتگو کو " پونی " یعنی دوتہائی ملاقات قرار دیتے ہیں ـ) مکمل ملاقات کا اشتیاق تھا، شدت سے تھا، .......... پھر کیا ہوا ؟ ملاقات ہوئی ؟ ......... جی ہاں! ہوئی، مگر ایسی ہوئی کہ جو مکمل ہوکر بھی ادھوری تھی ـ بقول شاعر ..........
نہ جی بھرکےدیکھانہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی
اب یہی بات ذرا سلیس اردو میں بھی سن لیجئے، ......... ہمارے ایک کرم فرما ہیں مفتی شکیل منصور قاسمی صاحب قبلہ! ہیں تو اپنے ملک کے، مگر اکثر قیام اُس سرزمین پر رہتا ہے جس کو دریافت کرکے کولمبس نےساری دنیا کے لئے بڑی مصیبت کھڑی کردی ہے، ذرا سوچئے اگر کولمبس امریکہ کو ڈھونڈ کر نہ نکالتا تو ہم سب اس دنیا میں کس قدر امن وچین، سکون و اطمینان سے رہتے، نہ فلسظین برباد ہوتا، نہ عراق ملیا میٹ ہوتا، نہ افغانستان اجڑتا، نہ شام برباد ہوتا ـ
بہر کیف ہمارے عزیز مفتی شکیل منصور صاحب اسی امریکا کے جنوبی حصے میں دین متین کے لئے اعلیٰ خدمات انجام دے کر اُسی نام نہاد سوپر پاور کے لوگوں میں انسانیت، توحید، خوف خدا، احساس مروت، اور احسان شناسی جیسی اعلی صفات پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اور اپنی کوششوں میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہورہے ہیں، جس طرح ایک چراغ سے ہزاروں چراغ جل کر شب تار کو روشن کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اسی طرح مفتی صاحب کے ذریعئے رشدوہدایت کے روشن چراغ بھی انشااللہ امریکی وادئِ ظلمات کو ایک دن منور کرکے رہیں گے ـ
مفتی صاحب کے علمی وتحقیقی فتاوے اور مضامین شوشل میڈیا اور دیگر رسائل وجرائد میں نظر نواز ہوتے رہے، ان کے رشحات قلم میں جہاں محقق اور مضبوط علمی مواد ہوتا وہیں ادبی چاشنی اور قلمی شگفتگی بھی ہوتی ہے، ............ ابتدا میں ہمارا تصور یہ تھا کہ کوئی عمر دراز، سن سفید پیرِ ہفتاد سالہ قسم کے بزرگ ہوں گے مگر ایک مرتبہ کسی گروپ میں تصویر دیکھی تو حیرت انگیز مسرت ہوئی کہ یہ تو جواں سال، مستعد اور متحرک قسم کی شخصیت نظر آتے ہیں، آگے چل کر اس کی تصدیق بھی ہوگئی کہ واقعی فعال اور محرک و متحرک بزرگ ہیں، مبداء فیاض نے انھیں علم وفضل کے ساتھ بصیرت قلبی، دوراندیشی، روشن ضمیری، خوش خلقی و خوش فکری سے بھی خوب نوازا ہے ـ
موصوف سال میں چند دنوں کے لئے وطن تشریف لاتے ہیں، اسی دوران مختلف علاقوں میں پھیلے اپنے قدر دانوں کے اصرار پر اُن سے ملنے کا وقت بھی نکالتے ہیں، پچھلی مرتبہ جب آمد ہوئی تھی تو اصرار کے باوجود ممبئی کا وقت نہیں نکل سکا تھا، ........... کچھ دن پہلے کسی گروپ کے ذریعئے پتہ چلا کہ جلد ہی سفر ہونے والا ہے، اور اس بار مفتی صاحب کے وطن مالوف سے دور افتادہ ہمارا شہر بھی محترم کی زیارت سے فیضیاب ہوگا، .............
یقین جانئے ناقابل بیان مسرت ہوئی، خاص طور پر اس لئے بھی کہ ممبئی کے لئے جو تاریخ مقرر ہوئی تھی یعنی 3,4,5 فروری وہ وہی تھی جب ممبئی میں انجمن اہل السنہ والجماعۃ کا سہ روزہ سالانہ اجلاس طے تھا، خیال تھا کہ کسی ایک دن قبلہ مفتی صاحب کو بھی زحمت دی جائے گی، ......... پھر پتہ چلا کہ یہاں کے لئے موصوف کے پروگرام پہلے سے طے کئے جاچکے ہیں ـ یہ جان کر ہمیں مایوسی اس لئے بھی نہیں ہوئی کہ مفتی صاحب سے ہمارا جو برادرانہ تعلق ہے اس وجہ سے یقین تھا کہ ہم محترم کے مصروف شیڈول میں سے تھوڑا وقت انجمن کے لئے چُرانے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے ـ مگر وہ کہتے ہیں نا کہ " حکم حاکم مرگ مفاجات " اچانک مسلم پرسنل لاء بورڈ کے محترم جنرل سکریٹری صاحب کا حکم نازل ہوا کہ اس بار کی عاملہ جو ۵ فروری کو لکھنو میں ہورہی ہے میں آپ کی شرکت بہت ضروری ہے، بہت اہم ایجنڈا ہے، ........... بہت معذرت کی، انجمن کے پروگرام کا حوالہ دیا، کاروبار، صحت، سارے حوالے دئے مگر یہ سارے اعذار " عذر لنگ " سمجھ لئے گئے ـ اب تو ہمیں ایسا لگنے لگا کہ شاید اس بار بھی مفتی صاحب کی مکمل زیارت سے محرومی رہے گی ـ مفتی صاحب کو فون کیا ساری بات بتائی کہ لکھنو کے لئے 4 فروری کو شام چار بجے ہمیں ہر حال میں نکلنا پڑے گا ایسے میں کیا اس بار بھی ملاقات سےمحرومی........ ؟ مفتی صاحب نے فرمایا آپ مطمئن رہیں آپ کے نکلنے سے پہلے ملاقات ہوجائیگی، ........ سبحان اللہ اندھاکیا چاہے ؟ دو آنکھیں ! بقول حسرت موہانی ...........
منحصر وقت مقرر پہ ملاقات ہوئی
آج یہ آپ کی جانب سے نئی بات ہوئی
الحمدللہ وعدہ وعدہِ محبوب ثابت نہیں ہوا، مفتی صاحب وقت مقررہ پر تشریف لے آئے، دواخانے پر مریضوں کا سلسلہ تھا، کچھ دیر انتظار بھی کرنا پڑا، ( جس کے لئے مجھے شرمندگی ہے) ساتھ میں تین اور بزرگ احباب تھے جن میں سے ہر ایک کے تعارف کے لئے ایک مضمون درکار ہے جو پھر کبھی! ( یار زندہ صحبت باقی !) پہلی مکمل زیارت تھی، بہت ولولہ تھا، جوش تھا، آرزوتھی، ارمان تھا کہ ملاقات ہوگی تو یوں کہیں گے، یہ بتائیں گے، وہ سنائیں گے مگر کیفیت یہ ہوگئی کہ بقول فراق ..........
تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو
تم کو دیکھوں کہ تم سے بات کروں پھر یہ ہوا کہ مفتی صاحب کی بے تلکلفی اور خوش طبعی نے طبیعت رواں کردی، گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا، مفتی صاحب کو احساس تھا کہ ہماری فلائیٹ کا وقت قریب ہے اس لئے جلد رخصت ہونا چاہتے تھے، ادھر ہم تھے جو برسوں کے پیاسے بزبان حال باربار یہ شعر پڑھ رہے تھے کہ ...........
آپ نے آتے ہی جانے کا ارادہ کرلیا
آپ کا آنا ہے گویا آپ کے جانے کا نام
چار بجے ہمیں ائرپورٹ کے لئے نکلنا تھا، مگر طبیعت تھی کہ سیر ہی نہیں ہورہی تھی، ہلکی پھلکی تفریحی گفتگو، علمی نکتے، روداد سفر، امریکی حالات، طرز تعلیم، غرض ایک سلسلہ تھا جو چل رہا تھا، اچانک ایک بچے نے ہمیں یاد دلایا کہ ابو ! ساڑھے چار بج گئے، اب واقعی مجبوری تھی، ممبئی کی ٹرافک میں ائرپورٹ تک کا سفر، ائرپورٹ کی مروجہ رسومات، عموما ان سب کے لئے ڈھائی سے تین گھنٹے درکار ہوتے ہیں، ہمارے پاس بمشکل سوا دو گھنٹے تھے، مگر مفتی صاحب اور دیگر بزرگوں کی برکت سے وقت میں برکت ہوئی، اگلے سارے مراحل آسان ہوگئے ـ
اب رخصت درپیش تھی، مفتی صاحب جانے کی اجازت مانگتے ہوئے کھڑے ہوگئے، اِدھر ہماری یہ کیفیت بقول خمار .......
رخصتِ جاناں ایک قیامت
اس پہ قیامت مجھ سے اجازت
کیا کرتے بادل نخواستہ یہ کہتے ہوئے رخصت کیا کہ
آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا
جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئےگا
مولانا محمود احمد خاں دریابادی آل انڈیاعلماء کونسل کے جنرل سیکریٹری اور آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبرہیں
Note: مولانا محمود احمد خاں دریابادی آل انڈیاعلماء کونسل کے جنرل سیکریٹری اور آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبرہیں