ٍملت کے سمجھ دار طبقے میں ایک بات جس پر سبھی کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ 'یہ وقت صرف دوسروں کو نصیحت کرنے کا نہیں بلکہ خود کام کرنے کا ہے'لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نکتے پر مجتمع ہو کر ہم نے ابھی تک خاطر خواہ کام شروع نہیں کیا ہے۔اس وقت ہم جو کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم میں سے کام نہ کرنے والا طبقہ کام کرنے والے طبقہ کے کاموں میں منفی پہلو تلاش کرکے حوصلہ شکنی کا کام کر رہا ہے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ ایک طبقہ کام کرنے والوں کی یا تو ٹانگ کھینچ رہا ہے یا اس کے راستے میں روڑے اٹکا رہا ہے۔اس کے برعکس جو کام کرنے والے ہیں ان میں سے بھی ایک طبقے کے اندر منفی پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے خول میں اس طرح بند ہیں کہ وہ دوسروں کے کام کو قابلِ اعتنا ء نہیں سمجھتے۔ اس منفی منفی کھیل کے وجہ سے ہی امداد باہمی کے تصور کا جنازہ نکل گیا ہے اور ہم جم غفیر ہونے کے باوجود ہر جگہ اکیلے کھڑے نظر آرہےہیں۔
یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ اللہ رب العزت نے دنیا میں آنے والے انسانوں کو مختلف النوع خصوصیات سے نوازا ہے؛کسی ایک میں کوئی خوبی ہے تو دوسرے میں کوئی اور،اسی لئے جس طرح ہمارے لئے یہ لازم ہے کہ ہم محض اپنی خوبیوں پرنظر رکھ کر دوسروں کو حقیر اور کمتر نہ سمجھیں،اسی طرح اخلاقی طور پر ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ دوسروں کی خوبیوں کی وجہ سے اپنے اندر محسوس یا غیر محسوس طریقے سے جلن اور حسد نہ پیدا کر لیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے بڑی تعداد میں لوگ کامیابی و کامرنی اور عزت و بلند ی کو صرف اپنے آپ تک محدود دیکھنا چاہتے ہیں۔یہ ایک چونکا دینے والی بات ضرور ہے لیکن زمینی سچائی یہی ہے؛اِس کی متعدد مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہے۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہمارے معاشرے میں تعلیم یافتہ ایک طبقہ بلند تعلیم کو اپنے خاندان کی اجارہ داری سمجھتا ہے کہ وہ صرف اپنے بچوں کو ہی اعلیٰ ڈگری و پوسٹ کا حقدار گردانتا ہے۔اس طرح کے افراداگر چہ زبان سے یہ بات نہیں کہتے لیکن عملی طور پر وہ ایسا ہی کرتے ہیں؛اسی کا نتیجہ ہے کہ اکثر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سماج کے اِن باخبر افراد کی کوششیں دوسروں کے بچوں کے لئے صفر ہوتی ہیں۔اِس منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اِس بات کا اعتراف بھی ضرور کرنا چاہئے کہ سماج میں تمام لوگ اِس کردار کے حامل نہیں ہیں بلکہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو چھوٹوں کی کامیابی کو بڑے پیمانے پر سراہتے ہیں۔
عملًا عملا مفاد عامہ کے لیئے کچھ کرنے کے تعلق سے جب ہم انفرادی زندگی سے آگے بڑھ کر اجتماعی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں بھی تنگ نظری کا دور دورہ پاتے ہیں؛چنانچہ اگر کوئی سماج جو اپنی خصوصیات پر نازاں ہے تو اُس سماج کے لوگ دوسرے سماج میں اُس خصوصیت کو منتقل کرنے پر توجہ نہیں دیتے،اسی طرح کسی ادارہ یا تنظیم کی کوئی امتیاز یا مضبوطی ہے تو وہ اِن خصوصیات کو اپنے تک محدود اور باقی رکھنا چاہتے ہیں اور اپنے کارندوں کو رازداری کی بھی تلقین کرتے ہیں۔مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ منفی سوچ رکھنے والے اس طرح کے ادارے،تنظیمیں اور سماج،اپنے مد مقابل بہتر حالت میں دیکھنا نہیں چاہتے ہیں؛حالانکہ بھلائی و بہتری کی ترویج ہم سب کا خاصہ ہونا چاہئے،جس میں وُسعت کو اپنی سعادت اور ذمہ داری سمجھنا چاہئے، جیسا کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں اچھے اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے تعاون کی ترغیب دی ہے: "اور نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو۔"(المائدہ:2)
سماج کے ایک طبقہ کے مذکورہ طرزِ عمل کواصطلاحی طور پر تنگ نظری سے تعبیر کیا جاتا ہے،یہ دیگر روحانی مرض حسد بغض وغیرہ کی طرح ایک روحانی مرض ہے،جس کا ظاہری اثر بھی خطرناک اور ہلاکت خیز ہے۔نبی اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:"ظلم سے بچواس لئے کہ ظلم قیامت کی بد ترین تاریکیوں کا ایک حصہ ہے،نیز بخل و تنگ نظری سے بچواِس چیز نے تم سے پہلے بہتوں کو ہلاک کیا ہے،اسی مرض نے اُن کو خونریزی اورحرام کو حلال جاننے پر آمادہ کیا۔"(ترمذی)
اِس حدیث پر غور کرنے سے تنگ نظری کی خطرناکی کے کئی پہلو واضح ہوتے ہیں۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اِس سے ہماری بربادی کے راستے ہموار ہوتے ہیں،ظاہر ہے کہ جب ہم اپنے اپنے شعبوں اور خصوصیات میں تنگ نظر ہوں گے تو اِس کا سب سے پہلا اثر یہ ہوگا کہ ہماری خصوصیات ہمیں تک محدود ہو کر رہ جائیں گی اور اُن خصوصیات کو پنپنے کا موقع نہیں ملے گا اور رفتہ رفتہ یہ خصوصیات اور خوبیاں قصہ پارینہ بن جائیں گی۔اِس کا وبال یہ ہوگا کہ ہماری یہ خصوصیات خود ہماری آنے والی نسلوں تک منتقل نہیں ہو سکیں گی اور اس طرح ہم اپنی بربادی کی تاریخ خود لکھنے والے بن جائیں گے۔مذکورہ حدیث میں تنگ نظری کے نقصانات میں سے ایک زبردست نقصان یہ بھی مذکور ہے کہ اِس سے خونریزی کے دروازے بھی کھلتے ہیں۔کیا آئے دن ہم یہ نہیں دیکھتے کہ اپنی اپنی صلاحیتوں اور خوبیوں کو اپنے خول میں بند رکھنے کی وجہ سے ہمارے درمیان فاصلے کی خلیج بڑھتی رہتی ہے یہاں تک کہ ہم ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہو جاتے ہیں۔
تنگ نظری اور اُس کے بھیانک نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم بِلا تاخیر اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی لائیں اور سوچ میں وُسعت و گہرائی پیدا کریں،بصورتِ دیگر ہم خانوں میں بٹ کر اپنی صلاحیتوں اور خصوصیتوں کو بدستور برباد کرتے رہیں گے اور بالآخر ہم اپنی اُن خوبیوں سے محروم ہوجائیں گے جن پر آج ہمیں ناز ہے۔ ہمیں یہ بات ضرور ذہن نشیں کر لینی چاہئے کہ شریعتِ اسلامیہ نے ہمیں دوسروں کی مدد کے لئے قدم قدم پر اُبھارا ہے۔معلمِ انسانیت نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:"بہترین شخص وہ ہے جو دوسروں کو فائدہ پہونچائے۔"(مشکوٰۃ)
خلاصہ یہ ہے کہ مطلوبہ کامیابی کے لئے ہمیں جہاں صرف نصیحت کرنے کی عادت سے باہر نکل کر عملاًکچھ کرنے کی ڈگر پر چلنا ہوگا وہیں ایک دوسرے سے دوری قائم کرنے کے بجائے باہمی تعامل کا ماحول قائم کرنا ہوگا۔
Note: