اسلام دنیا کا سب سے پہلا اور سب سے آخری مذہب ہے
مفتی محمد عبید اللہ قاسمی، دہلی
مورخہ 14 فروری، 2023
حضرت آدم علیہ السلام روئے زمین کے سب سے پہلے انسان ہیں جن کو نبی بناکر اللہ تعالی نے جنت سے ہندستان کی سرزمین پر نازل کیا اور ان کے ساتھ حضرت حواء علیہا السلام کو بھی زمین پر بھیجا اور پھر ان دونوں سے انسانی آبادی کی افزائش شروع ہوئی۔ اللہ تعالی نے نبوت کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع کیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر سلسلے کو ختم کیا. حضرت آدم علیہ السلام اور دیگر تمام انبیاء کو اللہ تعالی نے دینِ اسلام کے ساتھ مبعوث کیا۔
اسلام کے دو اعتبارات اور پہلو ہیں. بنیادی عقائد یعنی توحید، نبوت ورسالت، ملائکہ، جنت ودوزخ، جزاء وسزاء وغیرہ پر ایمان اور دوسرا پہلو عملی احکام کے اعتبار سے ہے. جہاں تک بنیادی عقائد کی بات ہے تو وہ تمام انبیاء میں بغیر کسی فرق کے مشترک رہے اور اس اعتبار سے سب کا دین اسلام ہی ہے. اسلام کا یہ عام معنی ہے جو تمام انبیاء کے دین وعقائد کو شامل ہے. اسلام کا اطلاق ایک دوسرے معنی یعنی خاص معنی پر بھی ہوتا ہے جو بنیادی عقائد کے ساتھ شریعتِ محمدیہ کو بھی شامل ہے جیسے نماز روزہ حج زکوٰۃ اور دیگر عملی احکام. اسلام کا اطلاق عام معنی پر بھی ہوتا ہے اور خاص معنی پر بھی. قرآنِ کریم میں دونوں قسموں کو اسلام کہا گیا ہے. عام معنی یعنی بنیادی عقائد مثلاً توحید، آخرت پر ایمان وغیرہ کے اعتبار سے دینِ اسلام حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا ہے اور قیامت تک باقی رہے گا. دینِ اسلام کے پیغمبرِ اول حضرت آدم علیہ السلام اور پیغمبرِ آخر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے بہتیرے انبیاء کے مسلمان ہونے کا ذکر قرآن مجید میں بصراحت کیا گیا ہے. چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام جو آدمِ ثانی کہلاتے ہیں کو بھی مسلمان کہا گیا ہے. سورہ یونس میں ارشاد ہے:
فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُمْ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ۔(72)
حضرت ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب علیہم السلام کو سورة البقرة میں مسلم کہا گیا:
وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (127) رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ (128) رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (129) وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ (130) إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ ۖ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ (131) وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ (132) أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (133)
حضرت يوسف عليه السلام کو سورة يوسف میں مسلمان کہا گیا:
رَبِّ قَدْ آَتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآَخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِماً وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ( 101)
حضرت موسى عليه السلام کو سورة يونس میں مسلمان بتایا گیا:
وَقَالَ مُوسَىٰ يَا قَوْمِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُسْلِمِينَ(84)
مذکورہ بالا انبیائے سابقین کے علاوہ دیگر انبیاء کے بھی مسلمان ہونے کی صراحت قرآنِ کریم میں مذکور ہے. حضرت آدم علیہ السلام سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک سارے انبیاء اللہ کی طرف سے مبعوث تھے اور سب کو دینِ اسلام دیکر بھیجا گیا تھا البتہ ان کی شریعتیں یعنی عملی احکام الگ الگ تھے. حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح حدیث میں ارشاد فرمایا کہ تمام انبیاء علاتی بھائی یعنی باپ شریک بھائی ہیں اگرچہ ان کی مائیں الگ الگ ہیں اور ان سب کا دین ایک ہے. قال الرسول -صلى الله عليه وسلم-: «أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَالْأَنْبِيَاءُ إِخْوَةٌ لِعَلَّاتٍ أُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ» رواه البخاري (3443)
اوپر عرض کیا گیا کہ اسلام عام معنی میں یعنی بنیادی عقائد کے اعتبار سے آغازِ بشر سے ہے اور یہ بات یہود ونصاری بھی جانتے تھے چنانچہ جب سورہ آلِ عمران کی آیتِ کریمہ "وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (85) نازل ہوئی جس میں کہا گیا کہ اللہ تعالی کے نزدیک صرف دینِ اسلام (جو شریعتِ محمدیہ کے ساتھ ہے) ہی قابلِ قبول دین ہے تو دیگر اہلِ مذاہب اور یہود ونصاری نے کہا کہ مسلمان تو ہم بھی ہیں تو پھر اللہ تعالی نے آیتِ کریمہ: وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ [سورة آل عمران: 97) نازل فرمائی اور کہا کہ اگر ایسا ہے تو تم بیت اللہ کا حج کرکے دکھاؤ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا. چنانچہ اس بارے میں تفسیرِ طبری میں حدیث منقول ہے:
حدثني المثنى قال، حدثنا أبو حذيفة قال، حدثنا شبل، عن ابن أبي نجيح قال، زعم عكرمة: " ومن يبتغ غير الإسلام دينًا "، فقالت الملل: نحن المسلمون! فأنـزل الله عز وجل: وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ [سورة آل عمران: 97]، فحجَّ المسلمون، وقعدَ الكفار.
اللہ تعالی نے واضح کردیا کہ دینِ اسلام کا سلسلہ مختلف شریعتوں کے ساتھ جو چل رہا تھا اس کی تکمیل اور خاتمہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر کردیا گیا چنانچہ ارشاد فرمایا کہ آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کردیا اور نعمتوں کو تام کردیا اور تمہارے لئے اسلام بطوردین سے راضی ہوا:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا. (٨)
خلاصہ یہ کہ دینِ اسلام حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا جو اس دنیا کے سب سے پہلے انسان ہیں اور جنتِ سماوی حقیقی سے جنتِ ارضی ہندستان میں اتارے گئے، اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو اسلام کے پیغمبرِ آخر ہیں کو خطہِ عرب میں مبعوث کیا گیا. لہذا یہ کہنا کہ ہندستان اسلام کی سرزمینِ اول ہے اور اسلام انسانیت کا قدیم ترین دین ومذہب ہے مبنی برحقیقت بات ہے. اسی طرح یہ کہنا بھی درست ہے کہ اسلام سب سے جدید دین یعنی 1500 سو سالہ ہے. دونوں باتیں ایک ساتھ درست ہیں کیونکہ دونوں باتیں عام اور خاص معنی کے اعتبار سے ہیں اور یہ دونوں باتیں قرآن وحدیث سے ثابت ہیں اور ان دونوں پر مسلمان ایمان رکھتے ہیں۔
Note: مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارہ ایسٹرن کریسینٹ کاان سےاتفاق ضروری نہیں