Friday, March 29, 2024 | 1445 رمضان 19
Islam

جمعیت علمائے ہند کے اجلاس کا پیغام مثبت ، اس کو آگے بڑھانے کی ضرورت

مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی

جمعیت علمائے ہند کے اجلاس کا پیغام مثبت ، اس کو آگے بڑھانے کی ضرورت

میرا مطالعہ

(مولانا ڈاکٹر) ابوالکلام قاسمی شمسی

 

12/ فروری 2023 کو دہلی کے رام لیلا میدان میں جمعیت علمائے ہند کا اجلاس نہایت ہی کامیاب رہا، اجلاس میں حضرت مولانا  ارشد مدنی حفظہ اللہ اور مولانا محمود مدنی محترم کا خطاب اور اجلاس کا پیغام مثبت رہا ، اس موقع پر  حضرت مولانا ارشد مدنی حفظہ اللہ نے جو تقریر کی وہ موضوع بحث بنی ہوئی ھے، اس پر دیگر مذاہب کے بعض دھرم گروؤں نے اعتراض جتایا ، میرے  خیال سے یہ عجلت میں لیا گیا فیصلہ تھا ، چونکہ حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب کی تقریر میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں تھی، میں نے کئی مرتبہ  ان کی تقریر سنی، آج بھی وہ تقریر گشت کر رہی ھے، یہ تو ہر مذہب کے مذہبی پیشوا اپنی تقریر میں کہتے ہیں کہ ہم سب انسان ہیں ، ایک ماں باپ کی اولاد ہیں ، یہی  بات حضرت مولانا مدنی صاحب نے بھی اپنی تقریر میں کہی اور بس۔

بھارت  بڑا ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ برسوں سے ایک ساتھ رہتے آرہے ہیں، ہمیشہ ان کے درمیاں میل محبت  اور قومی یکجہتی  کا ماحول رہا ، مگر موجودہ وقت  ملک  کے لئے بہت تشویشناک ہے  ،ملک میں نفرت کا ماحول پیدا کردیا گیا ، اس تشویشناک حالات میں جمعیت علمائے ہند نے نفرت کے ماحول کو ختم کرکے پھر ایسی میل محبت اور رواداری کو فروغ دینے کے لیے تحریک چلائی اور دھرم گروؤں کو اپنے اجلاس اور میٹنگ میں بلاکر اچھا اور مثبت پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ آپسی میل محبت اور قومی یکجہتی سے ہی امن و شانتی کی فضا قائم ہوسکتی ہے ، ملک کے عام  لوگوں نے جمعیت علمائے کے اس اقدام کی ستائش کی ، میرے خیال سے آپسی میل محبت اور رواداری کو تقویت دینے کے لیے جمعیت علماء کے قائدین نے  ہمیشہ اپنی سطح سے نیچے اتر  کر باتیں کیں، اور ہر ممکن کوشش کی کہ ملک  سے نفرت کی فضا ختم ہو اور سب مل جل کر رہیں ، میرے خیال سے جمعیت علماء نے سدبھاونا منچ  کا اعلان اسی مقصد کے تحت کیا تھا ،مگر افسوس کہ اس کا مطلب یہ سمجھ لیا گیا کہ اس ڈائیلاگ سے مسلم سماج کے لوگ  اپنے دینی معاملات میں نرم  ہوکر دوسرے دھرم کی باتوں کو مان لیں گے ، جبکہ سدبھاونا منچ کا مطلب واضح ہے کہ اپنے اپنے دھرم و مذہب پر قائم رہتے ہوئے ملک سے نفرت کو دور کیا جائے ،اپسی بھائی چارگی اور محبت کا ماحول قائم کیا جائے ، ملک کے آئین کی روشنی میں ہر ایک کو زندگی گزارنے کی ترغیب دلائی جائے ، اور ملک کی جمہوریت کو مضبوط کیا جائے ، جمعیت علمائے ہند نے دھلی رام لیلا میدان کے اجلاس سے یہی پیغام دیا ۔

ملک میں کچھ فرقہ پرست تنظیم اور عناصر کے ذریعہ بار بار اعلان کیا جاتا رہا ہے کہ اسلام اس ملک کا مذہب نہیں ہے اور مسلمان اس ملک کے نہیں ہیں، دہلی کے رام لیلا میدان سے ان کے منتظمین نے ملک کو یہ پیغام دیا کہ مسلمان اسی ملک کے رہنے والے ہیں اور ان کا مذہب اسلام بھی ہندوستان ہی کا مذہب ہے ، یہ پیغام جراتمندانہ پیغام ہے ،  گزشتہ انداز سے  بالکل مختلف ہے، اس لئے اس پر ہنگامہ ہے ، جبکہ یہ حقیقت ہے ،  اور سچ ہے ، ہمارے اکابر ہمیشہ  یہ کہتے آئے ہیں اور انہوں نے اس کو اپنی کتابوں میں بھی  درج کیا ھے۔

حضرت مولانا سید ارشد مدنی حفظہ اللہ کی تقریر پر دوسرے تو تنقید و تبصرہ کرتے ہی ہیں ، مگر اپنے میں سے بھی کچھ لوگ غلط تبصرہ کر رہے ہیں ، جبکہ ایسے لوگوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ حق اور سچ یہی ہے ،نیز ہر آدمی کا اپنا اپنا خیال اور نظریہ ہوتا ہے ، وہ اپنے خیال اور نظریہ کے مطابق کہتا اور بولتا ہے ، ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ تنقید و تبصرہ کرنے والے اپنے نظریہ سے دیکھ رہے ہیں ،جبکہ انہیں چاہئیے کہ حضرت مولانا کے بیان کو ان کے نظریہ کے مطابق دیکھیں، بہرحال میرے خیال سے حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب اور مولانا محمود مدنی صاحب دونوں کے بیانات مثبت ہیں ، ملک و ملت پر اس کے  مثبت اثرات مرتّب ہوں گے ، ان شاء اللہ! ویسے جمعیت علمائے ہند کے رام لیلا میدان کے اجلاس نے ملک میں غور و فکر کے لئے ایک نئی راہ ہموار کی ہے ، اور ہر طرف اس پر غور و فکر جاری ہے ، اللہ خیر کا معاملہ فرمائے اور جمعیت کے اجلاس کو ملک و ملت کے لئے فال نیک بنائے ۔

ہندوستان جمہوری ملک ہے ، اس میں آئین کو بالا دستی حاصل ھے ، ملک کا آئین تمام شہریوں کو  آئین کی روشنی میں زندگی گزارنے  کا حق عطا کرتا ہے، مساوات اور آزادی کا حق دیتا ہے، اس لئے تمام شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ آئین کے مطابق باوقار زندگی گزاریں ، آپسی  بھائی چارگی ، میل محبت ، رواداری اور قومی یکجہتی کو فروغ دیں ، اللہ تعالیٰ ملک کے آئین کی حفاظت فرمائے اور ملک کو امن و شانتی کا گہوارہ بنائے۔  

 

 

Note: مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ بہار کے سابق پرنسپل اور کئی اہم کتابوں کے مصنف ہیں