Thursday, November 21, 2024 | 1446 جمادى الأولى 19
Islam

خوبصورت راستہ اور منزل کی تلاش میں

خوبصورت راستہ اور منزل کی تلاش میں!
 
مدثر احمد قاسمی
 
اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور زندگی جینے کا وہ طریقہ بتایا ہے جس سے وہ  دوسرے مخلوقات سے از خود ممتاز ہوجاتا ہے۔اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایک باوقار زندگی جینے کے لیئے انسان پر یہ لازم ہے کہ اس حوالے سے خدائی احکامات پر عمل پیرا ہو بصورت دیگر وہ عملا اشرف المخلوقات کی تذلیل کا ذریعہ بن جائے گا۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا اعلان ایک جگہ اس طرح کیا ہے: "ہم نے اولاد آدم کو عزت ِبخشی ہے، ہم نے ان کو خشکی اور دریا میں سواری دی ہے، ان کو پاکیزہ و نفیس رزق عطا فرمائی ہے اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت سے نوازا ہے."(الاسرا:70)
 
 صاحب آسان تفسیر نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: "اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف جہتوں سے دنیا کی تمام مخلوقات پر فضیلت دی ہے، جسمانی حسن و جمال، بولنے کی صلاحیت، بھلائی اور برائی کے درمیان تمیز کرنے کا شعور ؛ لیکن سب سے بڑی فضیلت عقل کے ذریعہ عطا کی گئی؛ کیوں کہ انسان کی عقل ہی کا کرشمہ ہے کہ وہ علم و تحقیق کے راستہ میں آگے بڑھتا رہتا ہے اور اسی ہتھیار سے فضا کی بلندیوں اور سمندر کی اتھاہ گہرائیوں کو مسخر کئے ہوا ہے، علامہ قرطبی نے خوب لکھا ہے کہ شریعت کی حیثیت سورج کی ہے اور عقل کی حیثیت آنکھ کی ہے جب وہ عقل کی آنکھیں کھولتا ہے تو ہدایت کا سورج اسے نظر آتا ہے اور جب عقل کی آنکھیں بند کرلیتا ہے تو اس کے سامنے گمراہی کی تاریکیاں ہوتی ہیں اور وہ اسی میں بھٹکتا رہتا ہے."
 
مذکورہ تفصیلات کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم اپنی زندگی اور طرز زند کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم پر یہ بات کھلتی ہے کہ اشرف المخلوقات کی زندگی گزارنے کا جو معیار اللہ رب العزت نے طے کیا ہے،اس معیار سے کہیں نیچے ہم زندگی گزار رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی سماج میں ہمیں جو اعلی مقام ملنا چاہیئے، وہ مقام ہمیں نہیں مل پا رہا ہے۔اب اگرا س پستی کی وجہ ہم تلاش کریں تو ہمیں بآسانی یہ وجہ سمجھ میں آجاتی ہے کہ ہم خدائی اصولوں اور معیاروں کے بجائے خود ساختہ انسانی اصولوں اور معیاروں پر اپنی زندگی کی گاڑی چلا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جس انسانی عمل کو خدائی روشنی نہ ملے، اس کو ضائع ہونے سے کوئی بچا نہیں سکتا۔اس حقیقت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اس طرح واضح فرمایا ہے: " ’میری امت کے سارے لوگ جنت میں داخل ہونگے، سوائے اس کے جس نے انکار کردیا، عرض کیا گیا، انکار کس نے کیا؟ فرمایا: جس نے میرا حکم مانا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے حکم عدولی کی، اس نے انکار کردیا‘‘(مشکاۃ) اس حدیث سے یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ اگر ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز زندگی اور ہدایات کی پیروی نہیں کی تو ہماری دنیا تو برباد ہوگی ہی، ہمیں مابعد کی زندگی میں جنت والی زندگی سے محروم ہونا پڑیگا۔ 
 
یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ جب ایک مسلمان اچھی طرح یہ جانتا ہے کہ اس کی حقیقی کامیابی اس طرز زندگی کو اپنا نے میں ہے جو اللہ رسول نے سکھایا ہے تو پھر وہ دوسروں کے ایسے طریقوں کو کیوں اپناتا ہے جس میں تباہی ہی تباہی ہے؟ تجزیہ سے یہ جواب سامنے آتا ہے کہ بہت سارے مسلمانوں میں دینی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے نبوی طرز زندگی کی اہمیت و افادیت واضح نہیں ہوتی، اسی وجہ سے غیروں کی رنگین طرز زندگی سے وہ مرعوب ہو جاتے ہیں اور اسی کو اپنا نے میں اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔حالانکہ اس حوالے سے صاف طور پر یہ حدیث میں ہے کہ: "جو شخص ملتِ اسلامیہ کے علاوہ کسی اور امت کے ساتھ مشابہت اختیار کرے تو وہ ہم میں سے نہیں۔"(ترمذی) افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی پوزیشن کو بڑھانے کے لیئے اور سماج میں اعلی مقام حاصل کرنے کے لیئے اس طریقے کو اپنا لیتے ہیں جو ہمارا طریقہ ہی نہیں ہے۔ 
 
چونکہ غیروں کی طرز زندگی اپنانے کے نقصانات واضح تھے اس وجہ سے حضرت عمر رضہ اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت میں ایک حکم جاری فرمایا تھا۔ حضرت ابو عثمان النہدی رحمہ اللہ کی روایت ہے کہ ہم عتبة بن فرقد کے ساتھ آذربائیجان میں تھے کہ ہمارے پاس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک خط بھیجا (جس میں بہت سارے احکامات و ہدایات تھیں، منجملہ ان کے ایک ہدایت یہ بھی تھی کہ ) ”تم اپنے آپ کو اہلِ شرک اور اہلِ کفر کے لباس اور ہیئت سے دور رکھنا“۔ (جامع الأصول)
 
یہاں تک کی بحث سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اشرف المخلوقات کے تاج کو عملا سر پر سجائے رکھنے کے لیئے،ہمارے لیئے یہ ضروری ہے کہ ہم غیروں کے طریقوں سے مرعوب ہونے کے بجائے اسلامی طرز زندگی کو اپنا پسندیدہ راستہ اور منزل بنائیں۔اس مثبت تبدیلی کے لیئے رمضان المبارک ہمارے لیئے بہترین موقع ہے؛چونکہ رمضان المبارک سراپا روحانی انقلاب کا نام ہے، اس لیئے ہم یہ عہد کریں کہ آنے والے رمضان میں ہم روح کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ ظاہر کو بھی اسلامی طرز پر سنواریں گے اور مابعد رمضان اس تبدیلی کو برقرار رکھیں گے۔(ان شاء اللہ)

 

Note: مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں.