خشک ہونےکو ہیں اشکوں کےذخیرے بھی جمال
روئے کب تک کوئی اس دشت کی ویرانی پر
ــــــــــــــــــــ
از ـ محمود احمد خاں دریابادی
17 مارچ 2023, شام چھ بجے
کشمیر کو جنت ارضی کہا جاتا ہے، اس بار ہمارا کشمیر کا سفر کاروباری سفر تھا، کشمیر کے کئی علاقوں میں جانا ہوا، اس سفر میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جنھوں نے قلب پر عجیب تاثرات چھوڑے، ابھی پنجاب میں ہوں، چندیگڈھ ائر پورٹ پہونچا ہوں، تفصیل کا موقع نہیں صرف ایک واقعہ جس نے میری مذھبی اور ملی غیرت کو لزرہ براندام کردیا عرض کئے دیتا ہوں ـ
ہمارا قیام کئی روز سرینگر کے مشہور پانچ ستارہ ہوٹل میں رہا، عموما یہ ہوتا تھا کہ صبح ہوٹل سے نکلتے وقت استقبالیہ میں تاکید کرجاتے تھے کہ کمرے کی صفائی کرادی جائے، رات تک واپسی ہوتی تو کمرہ، بستر وغیرہ صاف ملتا تھا ـ ایک دن اتفاق سے صبح معمول سے قبل نکلنا پڑا اور استقبالیہ میں صفائی کے لئے کہنا بھی بھول گئے، ......... اُسی دن ایسا بھی ہوا کہ طبیعت کچھ بھاری ہونے کی وجہ سے دوپہر میں ہی واپسی ہوگئی، کمرے پر آئے دیکھا تو صفائی نہیں ہوئی تھی، بستر بھی تبدیل نہیں تھا، استقبالیہ میں فون کرکے صفائی کے لئے آدمی بھیجنے کو کہا ـ پھر ہم نے لباس تبدیل کیا، خیال تھا کہ آرام والے لباس تہبند اور بنیائن میں کچھ دیر نیند لے لیں گے تو طبیعت ہلکی ہوجائے گی ـ دفعتا اطلاعی گھنٹی بجی، ذہن میں آیا کہ صفائی والا ہوگا، میں نے آواز دی آجاو دروازہ کھلا ہے ـ ............. نیلے رنگ کے لباس میں سر پر اسلامی حجاب اور ہاتھوں میں صفائی کا سامان لئے ہوئے ایک نوجوان بیس بائیس سال کی بچی داخل ہوئی، میں جس طرح کے لباس میں بیٹھا تھا مجھے شرم محسوس ہوئی، فورا الماری سے کرتا نکالا، پہن ہی رہا تھا کہ لڑکی کہنے لگی کہ سر آپ کا روم کلین کرنا ہے، میں نے کہا اوکے، کون کرے گا، بھیجو، ........ کہنے لگی میں ہی کرونگی سر، اور ویکیوم کلینر سے قالین صاف کرنے لگی، باتھ روم صاف کیا، ڈسٹ بن سے کچرا نکالا، تولئیے وغیرہ بدلے، بستر ٹھیک کیا، ........ اس دوران میرا وہ حال تھا جو شاید اکبر الہ بادی کے اِس مصرعے سے سمجھا جاسکے کہ ..........
اکبر زمیں پہ غیرت قومی سے گڑ گیا
میں نے اس بچی سے سوال کیا کہ کیا روز تم ہی کمرہ صاف کرتی ہو، اس نے کہا جی سر، میں اس کا نام پوچھا، اور کہا کہ تم یہ کیسا کام کررہی ہو، یہ بھی کوئی خواتین کے کرنے کا کام ہے، یہ اتنا بڑا ہوٹل ہے، اس میں ہر قسم کے لوگ آتے ہوں گے، جن میں مسلم غیر مسلم، شرابی، کبابی، بدچلن اور بد معاش سبھی ہوتے ہوں گے، ....... .... کہنے لگی ہاں سر، یہاں غیر مسلم ہی ذیادہ آتے ہیں اور ایسے بھی ہوتے ہیں جیسے آپ بتارہے ہیں، اس نے مزید بتایا کہ اُس نے گریجویشن کیا ہے، جاب کے لئے بہت کوشش کی، مگر کہیں نہیں ملی، گھریلو حالات نے مجبور کردیا، دو بھائی تھے دونوں اب نہیں رہے ـ ......... ( کیوں نہیں رہے، کہاں چلے گئے یہ ہم سب جانتے ہیں، نہ بیان کرنے کی کی ضرورت ہے نہ اس کو بیان کرکے کوئی فائدہ ہونے والا ہے ـ ) اس نے لڑکی نے جو تھوڑی سی تفصیل بتائی، حالانکہ وہ بتانا نہیں چاہتی تھی، مگر میرے اصرار، چہرے مہرے اور نرم و ہمدردانہ لہجے نے شاید اُسے مجبور کردیا تھا، ........ بہر حال اُس نے جو تھوڑا سا بتایا وہ سن کر اسی وقت میری آنکھوں سے بے تحاشا آنسو جاری ہوگئے، ......... مگر تعجب یہ ہوا کہ اس وقت اُس بچی کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا، بالکل سپاٹ چہرہ تھا ، ........... ! انسانی نفسیات سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ ایسا تب ہوتا ہے جب انسان غم، غصے، اور بے بسی کی آخری حدوں تک جاپہونچے، ایسے وقت میں آنسو خشک ہوجاتے ہیں، غم وخوشی ظاہر کرنے والے اعصاب بھی شل ہوجاتے ہیں ـ ........ اس کو غالب نے ایک مصرعے میں کچھ یوں بیان کیا ہے،
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا
بہر حال میرے ساتھ اُس سفر میں کمشیر کے کچھ معتبر اور بااثر افراد بھی تھے، میں نے انھیں فون کیا اور اس بچی کو کسی باعزت کام ریسپشنسٹ، کلرک وغیرہ میں لگانے کی سفارش کی، انھوں نے وعدہ کیا کہ بچی کو ہمارا نمبر دیدیجئے اور کل دن میں کسی وقت دفتر آنے کے لئے کہہ دیجئے، انشااللہ کوئی مناسب نظم ہوجائے گا ـ ......... اللہ کرے ہوجائے ـ
سوال اس ایک بچی کا نہیں ہے، ایسی کتنی بچیاں کشمیر میں ہوں گی، ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی نہ جانے کتنی بچیاں حالات کے تحت غیر مناسب کام کرنے پر مجبور ہیں، نہ جانے کتنی بچیاں اپنے اور اپنے گھر والوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے اپنے جسم اور اپنے دین و ایمان کا سودا کررہی ہیں ـ ............ آخر اس صورت حال کی ذمہ داری کس پر ہے ؟......... آپ کہیں گے شاید فلاں جماعت پر، میں کہوں گا شاید فلاں تنظیم پر، کچھ لوگوں کا خیال ہوگا شاید فلانے فلانے لیڈر پر ؟
سوال یہ ہے کہ یہ ذمہ داری آپ پر کیوں نہیں ہے ؟ مجھ پر کیوں نہیں ؟
کیا اللہ کے دربار میں اس بارے میں آپ سے سوال نہیں یوگا ؟ ضرور ہوگا! ......... مجھ سے بھی ہوگا اور یقینا ہوگا!
سوچئے ہم کیا جواب دیں گے ؟؟
Note: مولانا محمود احمد خاں دریابادی آل انڈیاعلماء کونسل کے جنرل سیکریٹری اور آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبرہیں