Tuesday, December 10, 2024 | 1446 جمادى الثانية 09
Muslim World

!یو ں ہی' جھوٹ بولنے اور وعدہ کرنے کے کلچر سے باہر آنا ضروری'

موجودہ وقت میں ایک لمبی فہرست ایسے کاموں کی ہے جنہیں ہم میں سے ایک طبقے نے معمولات زندگی میں شامل کر لیا ہے؛ حالانکہ وہ کام اخلاقی طور پر ناپسندیدہ اور از روئے شریعت غلط ہیں۔ستم بالائے ستم یہ کہ لوگ اس طرح کے کاموں کو انجام دیکر احساس ندامت سے بھی اس طرح خالی ہوتے ہیں گویا کہ  انہوں نے کچھ بھی غلط نہیں کیا ہے۔ اس روحانی و اخلاقی بیماری میں سرفہرست، لوگوں کا کسی کام کو انجام دینے کے تعلق سے غلط بیانی سے کام لینا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی آپ سے فون پر پوچھ رہا ہے کہ: "آپ کہاں ہیں، مجھے آپ سے ملاقات کرنی ہے۔" آپ شہر اور مقام پر رہتے ہوئے بھی یہ جواب دیتے ہیں کہ: " میں اس وقت شہر سے باہر ہوں اس لیئے ملاقات نہیں ہوسکے گی." اسی کی ایک اور دوسری مثال یہ ہے کہ آپ کسی کام کے تعلق سے کسی سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ میں فلاں تاریخ کو یہ کام کر لوں گا اور وہ کام متعینہ وقت میں نہیں کرتے ہیں کیونکہ پہلے سے ہی آپ کے دل میں محض ٹالنے اور متعینہ کام نہ کرنے کا ارادہ موجود ہوتا ہے۔ یہ وہ بیماری ہے جس سے معاشرے میں ایک دوسرے کی باتوں اور وعدوں سے بھروسہ اٹھتاجارہا ہے اور شک و شبہ کی ایک فضاء قائم ہوگئی ہے۔ 
 
مذکورہ بیماری سے جہا ں انسانی کردار پر سوالیہ نشان لگتا ہے، وہیں ایمان کی کمزوری بھی واضح ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین فطرت اسلام نے اس بیماری سے انسانی سماج کو دور رکھنے کے لیئے تاکید ی تعلیم دی ہے چنانچہ قرآن مجید میں جہاں سچ بولنے اور سچے لوگوں کے ساتھ میں رہنے کی تلقین کی گئی ہے وہیں ایفائے عہد کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔‘‘ (التوبۃ: 119)ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "آج وہ دن ہے کہ سچ بولنے والوں کو ان کی سچائی ہی فائدہ دے گی۔"(المائدۃ: 119) اسی طرح ایفائے عہد کے تعلق سے رب ذوالجلال کا فرمان ہے کہ: "اور وعدہ پورا کیا کرو ، بے شک وعدہ کے بارے میں پوچھ ہوگی۔" (بنی اسرائیل:34) علماء نے لکھا ہے کہ وعدہ کسی فرد سے ہو یا قوم سے اور مسلمان سے ہو یا غیر مسلم سے ، اس کا پورا کرنا واجب ہے ، فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ جب کوئی وعدہ کیا جائے تو دیانتاً اس کو پورا کرنا واجب ہے، یعنی اگر شدید عذر کے بغیر پورا نہ کرے تو گنہگار ہوگا۔
 
صاحب شریعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکید کی وجہ سے ہی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی زندگی سچ بولنے اور وعدہ کو پورا کرنے کے حوالے سے مثالی تھی۔ایک صحابیہ رضی اللہ تعالیٰ  عنہا کی زندگی کے اس واقعے کو پڑھیئے اور دیکھیئے کہ چھوٹی باتوں میں بھی سچائی کی کس حد تک خیال تھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تجزیئے کو سمجھیئے کہ معمولی بات میں بھی جھوٹ بولنے سے کس طرح منع فرمایا ہے۔ عبد اللہ ابن عامر فرماتے ہیں کہ ایک روز نبی ا کرم  ﷺہمارے گھر تشریف لائے،میں اس وقت چھوٹا تھا اس لیے کھیلنے چلا گیا، میری والدہ نےکہا اےعبد اللہ! یہاں آؤ میں تجھے ایک چیز دوں گی، رسول اکرم ﷺ نے دریافت کیا، تم کیا چیز دینا چاہتی تھیں، انہوں نےعرض کیا کھجور، آپ ﷺنےفرمایا: اگر تم ایسا نہ کرتیں تو تمہارے نامہ اعمال میں ایک جھوٹ لکھاجاتا-" (ابو داؤد) اس حدیث پاک میں ان لوگوں کے لیئے زبردست پیغام ہے جو یوں ہی کسی غلطی کے احساس کے بغیر جھوٹ بولتے رہتے ہیں۔
 
وہ طبقہ جو کسی کو دھوکہ دینے یا وقتی طور پر جان بچانے کے لیئے جھوٹ بولتا ہے،اسے سمجھ لینا چاہیئے کہ وہ صرف ایک جرم نہیں کررہا ہے بلکہ مختلف جرائم کی بنیاد رکھ رہا ہے جس میں وہ یکے بعد دیگرے پھنستا جائے گا۔اس بات کو بہت ہی بہتر ڈھنگ سے اس واقعے سے سمجھا جا سکتا ہے جس کو صاحب تفسیر کبیر نے نقل کیا ہے.ایک شخص بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا- بولا مجھے، زنا، چوری، شراب اور جھوٹ کی عادت ہے، میں ایمان لانا چاہتا ہوں مگر یکدم چاروں عیب نہیں چھوڑ سکتا- حضور مجھے ایک عیب سے منع فرما دیں تو میں اسلام قبول کر لوں گا، فرمایا جھوٹ چھوڑ دے- وہ بولا بہت اچھا- مسلمان ہوا-جب دربارِ عالی سے گیا چوری کا ارادہ کیا، خیال آیا کہ اگر پکڑا گیا تومیں جھوٹ تو نہیں بولوں گا، اقرار کروں گا اور میرا ہاتھ کٹےگا- یہی خیال ہر عیب کرتےوقت آیا- سب سےتوبہ کرلی- بارگاہ عالی میں حاضر ہوا- بولا میری جان فدا آپ(ﷺ) جیسے معلم پر کہ آپ (ﷺ) نے مجھے جھوٹ سے روک کر سارے عیبوں سے بچا لیا -غور فرمائیں کہ جھوٹ نہ بولنے سے کتنی قسم کی برائیوں سے بچا جا سکتا ہے اور اس کے برعکس جھوٹ بولنے سے انسان کتنی قسم کی برائیوں میں پھنس سکتا ہے۔
 
زیر نظر مضمون میں ایفائے عہد کے تعلق سے جو بات کہی گئی ہے، اس کے فقدان نے بھی ہمارے معاشرے کو بہت نقصان پہونچایا ہے۔  ایک حدیث کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ وعدہ کر کے اس کو توڑنے کی عادت (یا وعدہ کرتے وقت ہی توڑنے کی نیت ہو تو وعدہ توڑنا) منافق کی نشانی ہے، اس لیے اگر کسی شخص نے کوئی وعدہ کیا ہو تو حتی الامکان اس کو اپنا وعدہ پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، لیکن اگر  کسی نے وعدہ پورا کرنے کی نیت سے کوئی وعدہ کیا ہو اور اب اس وعدہ کو پورا کرنا اس کی استطاعت میں نہ ہو (جس کی وجہ سے وہ وعدہ پورا نہ کرسکے) تو ایسی صورت میں اس کو اللہ تعالیٰ سے خوب توبہ و استغفار کرنا چاہیے، امید ہے اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں گے۔
 
 
Note: خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں شرعی تعلیمات کے معاملے میں چاہے وہ جھوٹ نہ بولنے اور وعدہ پورا کرنے کے تعلق سے ہو یا کسی اور تعلق سے مکمل طور پر سنجیدہ ہونا چاہیئے اور یوں ہی کسی کام کے کرنے کے کلچر سے باہر آنا چاہیئے۔