موسم بہار کی رعنائیوں سے محروم نہ ہوں!
مدثر احمد قاسمی
موسم بہار کا انتظار ہم میں سے تقریباسبھی کو ہوتا ہے اور اس سے بھر پور لطف اندوز ہونے کا موقع کوئی بھی صاحب ذوق اپنے ہاتھوں سے جانے نہیں دیتا؛ کیونکہ اس سے جہاں ایک اعتبار سے ذہن و دماغ کو تازگی ملتی ہے وہیں ظاہرا بھی شخصیت میں نکھار آتا ہے۔اس حوالے سے یقینا اس شخص کو محروم القسمت سمجھا جائے گا جو کسی بھی اعتبار سے موسم بہار کی رعنائیوں سے ناواقف یا بیزار ہو۔ اس پس منظر میں ہمارے لیئے نیکیوں کا موسم بہار رمضان المبارک کی اہمیت و افادیت کا سمجھنا بہت آسان ہے اور ظاہرا نتائج کے اعتبار سے اپنی ذات کو خوش قسمت یا بدقسمت کی فہرست میں دیکھنا بھی سہل ہے۔ اس تجزیئے کے بعد عقل سلیم کو بروئے کار لاکر ہمیں یہ کوشش کرنی ہے کہ ہمارا شمار بہار رمضان سے ہر انداز سے لطف اندوز ہونے والوں میں ہوجائے۔
آئیے ہم شریعت کے آئینے میں اس بات کو سمجھتے ہیں کہ رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار کس طرح ہے! اس تعلق سے سب سے بنیادی بات قرآن مجید میں یہ ہے کہ: ’’اے ایمان والو! فرض کیا گیا تم پر روزہ، جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر، تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ، چند روز ہیں گنتی کے۔‘‘(البقرہ:183) ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جو شخص ماہِ رمضان کے روزے رکھے بحالت ایمان اور بامید ثواب تو اس کے گذشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے اور جو شخص ماہِ رمضان میں کھڑاہو یعنی نوافل (تراویح وتہجد وغیرہ) پڑھے بحالت ایمان اور بامید ثواب اس کے بھی گذشتہ گناہ معاف کردیے جائیں گے۔" (بخاری) اس کے علاوہ نبوی تعلیمات کی روشنی میں رمضان کی فضیلت کا لب لباب یہ ہے کہ اس ماہ میں ایک نیکی فرض کے برابر اور فرض ستر فرائض کے برابر ہوجاتا ہے، اس ماہ کی ایک رات جسے شبِ قدر کہا جاتا ہے وہ ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور خیرخواہی کا مہینہ ہے، اس میں مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، اس میں روزہ افطار کرنے والے کی مغفرت، گناہوں کی بخشش اور جہنم سے آزادی کے پروانے کے علاوہ روزہ دار کے برابر ثواب دیا جاتا ہے۔ اس ماہ کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔
رمضان المبارک کی زبردست فضیلت اور روزے کے بیشمار فوائد کے بعد بھی ہمارے لیئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم میں سے ایک طبقہ، جس میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے، اپنے عمل سے اس مہینے کے تقدس کو پامال کرتا ہے اور اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کو احساس جرم بھی نہیں ہے۔ ان جیسے لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے ضرور سبق لینا چاہیئے: "جو شخص بلا کسی عذر کے ایک دن بھی ماہِ رمضان کا روزہ چھوڑے گا تو پوری زندگی کے روزے بھی اس کے ثواب کی تلافی نہ کرسکیں گے۔"(مشکاۃ)
مذکورہ معروضات کی روشنی میں تمام مسلمانوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ رمضان المبارک کے حوالے سے شارحِ شریعت نبی اکرم ﷺ کی مبارک زندگی کا بغور مطالعہ کریں اور یہ دیکھیں کہ رمضان المبارک میں آپ ﷺ شب و روز کس طرح گزار تے تھے اوراِس مقدس مہینے کے تعلق سے آپ ﷺ کے احساسات کیا تھے۔
رمضان المبارک کے حوالے سے نبی اکرم ﷺ کی حیات ِ طیبہ کا ایک اہم خلاصہ یہ ہے کہ سن 2ہجری میں روزہ کی فرضیت کے بعد سے سن 11 ہجری تک یعنی دنیا سے پردہ فرمانے تک آپؐ نے کل 9رمضان کے مہینوں میں روزے رکھے۔ آپ ﷺ کی حیات ِ طیبہ کے 9 سال کے رمضان کے یہ روزے اُمت مسلمہ کے لئے اِس اعتبار سے عظیم سوغات ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے آپ ﷺ کے رمضان کے روزں کو دیکھا اور پرکھا اور پھر قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے منبعِ ہدایت سے رہنمائی لے کر روشنی کا ایک نہ بجھنے والا مینار قائم کردیا۔یقیناً خوش نصیب ہیں وہ افراد جو اُس مینارہ نور سے روشنی حاصل کر کے رمضان کے روزوں سے اپنی دنیا و آخرت کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں.
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ زندگی میں کوئی بھی اہم اور قابلِ قدر چیز بغیر مشکل اور جد و جہد کے حاصل نہیں ہوتی۔ چونکہ رمضان المبارک نیکیوں کا خزینہ ہے تو ہم یہ کیسے تصور کر سکتے ہیںکہ وہ خزینہ ہم سو کر او ر غفلت میں رہ کر حاصل کر لیں گے۔ ایک حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ: ’’روزہ میرے لئے ہے اور اس کا بدلہ میں عطا کروں گا۔‘‘ (بخاری) اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس بدلے کا وعدہ کیا ہے، اس کی وسعت کا اندازہ بھی ہمارے تصور سے ما وراء ہے، لہٰذا انعامات کے اُس بحر بیکراں میں غوطہ زن ہونے کیلئے اور بہار رمضان سے مستفید ہونے کے لیئے ہمیں اپنی عبادت والی محنت کو دو چند کر دینا چاہئے۔
Note: مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں