Thursday, April 25, 2024 | 1445 شوال 15
Islam

ایمان و احتساب کے ساتھ روزہ رکھیں

ایمان و احتساب کے ساتھ روزہ رکھیں!
 
ازافادات: حضرت مفتی ابو القاسم نعمانی دامت برکاتہم
مہتمم و شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند
 
رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہوچکا ہے۔اس مہینے کے متعدد فضائل احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص رمضان کے مہینہ میں ایمان اور احتساب کے ساتھ روزہ رکھے گا اس کے گذشتہ گناہ معاف ہو جائیں گےاور جو شخص ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کے مہینہ میں رات کو قیام کرے گا، اس کے گذشتہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔ (بخاری شریف)
نبی اکرم ﷺ نے صرف روزہ رکھنے اور قیام اللیل کرنے پر گذشتہ گناہوں کے معافی کی خوش خبری سنائی؛لیکن ساتھ ہی دو باتوں کی شرط بھی لگائی :ایمان اور احتساب۔
ایمان کا مطلب ہے اللہ کے وعدوں پر یقین کرتے ہوئے روزہ رکھنا کہ جو اللہ نے فرمایا ہے وہ بالکل بر حق ہے، اس میں ذرہ برابر شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔
اور احتساب کے معنی استحضار کے ہیں یعنی اطاعت و فرماں برداری کے کاموں کی انجام دہی کے وقت اللہ کی رضا کا قصد کرنا اور اس کا ثواب طلب کرنا۔ مثلاًہم نماز کے لیے کھڑے ہوں تو پوری نماز کے اندرنماز کا دھیان رہے،ہر وقت یہ بات مستحضر رہے کہ میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوا ہوں،اسی طرح روزہ کے اندر استحضار کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا روزہ اس استحضار کے ساتھ ہو کہ ہم اللہ کی حکم بناء پراپنی خواہشات اور ضرورتوں کو چھوڑ کر اللہ کو راضی رکھنے نیز روزہ کے اثرات و ثمرات اور آخرت کے اجر و ثواب کو حاصل کرنے کے لیے روزہ رکھ رہے ہیں یعنی ہر وقت اپنے روزہ دار ہونے کا اور روزے کی جو مطلوبہ صفات ہیں انہیں اپنے اندر پیدا کرنے کا تصور تازہ رہے یہ احتساب ہے۔
میرے استاذ محترم حضرت مولانا سید فخر الدین صاحب مرادآبادی رحمہ اللہ (سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند )نے بخاری شریف کے سبق میں اس مضمون کو ایک دوسرے موقعہ پر بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا تھا ۔
پچھلے گناہوں کے معاف ہونے کی جو بات رمضان کے صیام و قیام کے حوالے سے ذکر کی گئی ہے،نماز جنازہ میں شرکت کرنے والے کےلیے بھی یہی اجروثواب بیان کیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص ایمان واحتساب کے ساتھ کسی کے جنازے میں شرکت کرتا ہے اور اس کی تدفین میں بھی شرکت کرتا ہے تو وہ دو قیراط ثواب لے کر لوٹتا ہے اور جو صرف نماز میں شرکت کرکے لوٹ آتا ہے وہ ایک قیراط لے کر لوٹتا ہے اس میں بھی یہ قید لگی ہوئی ہے کہ جنازے میں شرکت ایمان و احتسا ب کے ساتھ ہو( مشکوۃ شریف،حدیث نمبر 1651)
حضرت مولانا رحمہ اللہ نے مثال دے کرفرمایا کہ آپ کسی جنازے میں جانے والے سے پوچھیں کہ آپ کیوں جنازہ میں جارہے ہیں تو اس کا جواب سنیئے وہ کیا کہے گا ؟
کوئی کہے گا کہ رشتہ داری نبھانے کےلیے آیا ہوں، کوئی کہے گا کہ پڑوس میں رہتے تھے اس لیے آیا ہوں،کوئی کچھ تو کوئی کچھ کہے گایعنی جنازہ میں شرکت کی جو چیز محرک بنی ہے وہ رشتہ داری ہے یا پڑوسی ہونا ہے،یا کوئی اور تعلق ہے۔ان میں شاید ہی کوئی کہے گا کہ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اور دوقیراط ثواب پانے کے لیے شریک ہوا ہوں ۔عموماً تصور یہ ہوتا ہے کہ میں جنازہ میں شریک اس لئے ہو رہا ہوں کہ یہ میرے رشتہ دار ہیں اس لیے مجھے جنازہ میں آ نا چاہئے،یہ پڑوسی ہے اس لیے تدفین میں شرکت کرنی چاہیے۔یہ تصور کہ میں جنازہ میں اس لیے شرکت کررہا ہوں کہ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قیراط اجر کا ذکر فرمایا ہے یہ ہے احتساب۔اس کیفیت کے ساتھ جو آدمی شریک ہوگا اسی کو یہ ثواب ملے گا ۔ یہی احتساب ہر عمل میں ہونا چاہیے، روزہ رکھنے میں،تلاوت کرنے میں،رات کی عبادت کرنے میں وغیرہ۔ اِسی روایت میں یہ بھی ہے کہ جو شخص شب قدر میں جاگتا ہے عبادت کرتا ہے ایمان واحتساب کے ساتھ یعنی اللہ کے وعدوں پر یقین کرتے ہوئے کہ اللہ جل شانہ نے اپنی پاک کتاب میں شب قدر کے سلسلے میں جو فضائل بیان فرمائےہیں( ليلة القدر خير من الف شهر) شب قدر بہتر ہے ہزار مہینوں سے۔ بلاشبہ وہ برحق ہے اگر اس رات کی عبادت مجھے نصیب ہوگی تو مجھے ایک ہزار مہینوں کی عبادت کا ثواب ملے گا اور پھر اللہ کے وعدہ پر یقین رکھتے ہوئے نیت کو مستحضر رکھے کہ اللہ کو راضی کرنے کے لیے اس کے حکم کو پورا کرنے کے لئے عبادت کر رہا ہوں تو ان شاء اللہ اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
روزہ ہو، تراویح ہو،رات کی عبادت ہو ان سب کے اندر ان جذبات کا استحضار ضروری ہے۔ جب یہ تصورر ہےگا کہ میں روزہ رکھ رہا ہوں اللہ کو راضی کرنے کے لیے تو زبان کی بھی حفاظت کرے گا ،کان کی بھی حفاظت کرے گا، آنکھ کی بھی حفاظت کرے گا اور دل و دماغ کی بھی حفاظت کرے گا۔ دوسروں کے بارے میں بدگمان و بد ظنی اور حسد وغیرہ جن صفات سے ہمیں منع کیاگیا ہے ان کو بھی اپنے دل میں آنے نہیں دےگا۔
الغرض:ہمارے دل کی صفائی کے لیے، ہمیں پاک کرنے کے لیے،ہمارے قلب کی گندگی کو دور کرنے کے لیےاور ہمیں متقی اور پرہیز گار بنانے کے لیے روزہ فرض کیا گیا ہے۔
جیساکہ خود قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا:اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو (البقرۃ)
 
اللہ تعالی ہمیں ایمان و احتساب کے ساتھ روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Note: