Friday, April 19, 2024 | 1445 شوال 10
Islam

رمضان میں بقیہ گیارہ مہینوں کے معمولات سے باہر آئیں

 
رمضان میں بقیہ گیارہ مہینوں کے معمولات سے باہر آئیں
 
مدثر احمد قاسمی
 
دنیا میں بسنے والے ہر انسان کو ایک پر سکون زندگی کی تلاش ہوتی ہے تا کہ اُس نے اپنی زندگی کے جو مقاصد طے کئے ہیں اور کامیاب زندگی کے لئے جو خواب دیکھے ہیں وہ پورے ہوسکیں! کیونکہ اگر حالات سازگار نہ ہوں اور زندگی اطمینان نام کی چیز سے خالی ہو تو بلند عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچنا تو دور کی بات روزہ مرہ کی زندگی کے ضروری معمولات کو بھی انجام دینا ایک مشکل امر بن جاتا ہے۔ اس تمہید کے پس  منظر ہی میں مسلمان اپنے اندر روحانی تبدیلی کے بڑے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے ماہ رمضان کی مبارک ساعتوں کا سال بھر انتظار کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماہ مقدس اپنے جلو میں سکون کا عظیم سوغات لے کر ہم پر سایہ فگن ہوتا ہے، اس حقیقت کو ہر باشعور سمجھ سکتا ہے اور شریعت کے رمز سے آشنا ہر شخص بآسانی محسوس بھی کر سکتا ہے۔ 
رمضان المبارک کا مہینہ روحانی سکون کا استعارہ اس وجہ سے ہے کہ اس میں شیطانوں کو پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ اس مہینے کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے، دوسرا مغفرت کا ہے اور تیسرا جہنم سے خلاصی کا ہے۔ اس مہینے میں روزے داروں کے لئے سمندر کی مچھلیاں تک مغفرت طلب کرتی ہیں۔ سحری تناول کرنے والوں پر اللہ تبارک و تعالی کی خصوصی عنایت ہوتی ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں ایک رات کو شب قدر  سے موسوم کیا جاتا ہے جو کہ فضیلت کے لحاظ سے ہزار راتوں سے افضل ہے اور سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ اس مہینے میں روزہ کے ذریعے ہم اپنے نفس پر قابو پاتے ہیں جو کہ اس تقوی کے حصول میں معاون ہے جو دونوں جہان میں کامیابی کی ضمانت ہے۔
اہم سوال یہ ہے کہ رمضان المبارک جب ہمیں نیک عمل کے لیے سکون و اطمینان کے اعتبار سے بہترین مواقع فراہم کرتا ہے تو کیا ہم اس موقع سے فائدہ اٹھا پاتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں حقیقت حال کا جائزہ لیا جائے تو بظاہر اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ہم نیکی کے جذبے اور ارادے کے باوجود بقیہ گیارہ مہینوں کے معمولات سے باہر نہیں نکل پاتے۔ اس کی ایک عملی مثال یہ ہے کہ رمضان کے ابتدائی ایام میں نماز روزہ، ذکر اذکار اور دیگر عبادت کے حوالے سے ہم انتہائی پر جوش ہوتے ہیں لیکن جوں جوں رمضان کے ایام گزرتے جاتے ہیں، ہمارے جذبات بھی سرد پڑتے جاتے ہیں کیونکہ ہم دوبارہ غیر رمضان کے اپنے سابقہ معمولات کی طرف لوٹ جاتے ہیں بلکہ جب عید کی تیاری کا معاملہ آتا ہے تو رمضان کے معمولات کو ہم بالکل ہی پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
 
چونکہ رمضان المبارک اپنے اندر مثبت تبدیلی لانے اور اس کو محسوس کرنے کا نام بھی ہے، اس وجہ سے ہمیں ذاتی طور پر تبدیلی کے لئے جدو جہد کرنی چاہئے۔ یہ حقیقت ہے کہ موبائل پر تلاوت سن کر یا نماز تر اویح دیکھ کر ہم اپنے اندر وہ تبدیلی نہیں لاسکتے جو تبدیلی خود تلاوت کر کے اور تراویح پڑھ کے ممکن ہے۔ اسی طرح بیٹھے بیٹھے افطار و سحری کھانے سے ہم اپنے اندر وہ تبدیلی محسوس نہیں کرسکتے جو اہل خانہ اور ساتھ رہنے والوں کے کام میں ہاتھ بٹاکر کر سکتے ہیں اور اسی طرح خادموں و کارندوں پر معمول کے کام کے بوجھ کو باقی رکھ کر یا بڑھا کر ہم اپنے اندر وہ روحانیت محسوس نہیں کر سکتے جو اُن کے کام کے بوجھ کو ہکا کر کے کر سکتے ہیں۔
 رمضان المبارک کے تعلق سے ہمیں یہ ضرور یادرکھنا چاہئے کہ اس مہینے میں صرف ظاہری تبدیلی مطلوب نہیں ہے بلکہ باطنی تبدیلی بھی مقصود ہے، اس لئے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ نماز ، روزہ تلاوت وغیرہ کے ظاہری اعمال سےہمارے باطن میں تبدیلی ہورہی ہے یا نہیں۔ اس تبدیلی کو پرکھنے کا آلہ احساس کی پاکیزگی اور روحانیت کی تازگی وافزودگی ہے۔ اگر ہم اپنے اندر ان تبدیلیوں کو محسوس نہیں کرتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی نیت کو ٹٹولنا ہوگا اور اُس کوبار بار چیک کر کے اللہ تعالی کی خوشنودی و رضا کا اس کو محور اصلی بنانا ہو گا۔
ماہ رمضان کے پرسکون ماحول میں بھی اگر ہم شریعت کے ذریعہ مطلوب اعمال کی طرف نہیں لوٹ پاتے ہیں تو یہ ہماری بہت بڑی حرماں نصیبی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : "اُس شخص کی ناک خاک آلود ہو( یہ عربی زبان کا محاورہ ہے جس کا مطلب تذلیل ہے) جس کی زندگی میں رمضان آیا اور اُس کی مغفرت ہونے سے پہلے گزر گیا۔ (ترمذی)
لہذا نیت کی بار بار درستگی کے ساتھ ہمیں رمضان المبارک کے باقی ماندہ دنوں میں اپنے مقاصد طے کر لینے چاہئیں اور نظام الاوقات بھی ضرور بنالینا چاہئے ۔ اگر اب تک ہمارا وقت غفلت میں گزر گیا ہے یا جس رفتار سے ہمیں اعمال کی طرف قدم بڑھانا تھا نہیں بڑھا سکے ہیں تو اب بھی ہمارے پاس تو بہ اور اعمال صالحہ کی طرف رجوع کا خاصا موقع موجود ہے، اس لئے بچے ہوئے اس موقع کو غنیمت جان کر رمضان المبارک کے شب وروز کو عبادتوں سے سجا لیں۔
ہمیں ی بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہم کتنی بھی کوشش کر لیں، چیزیں ہمارے حق میں نہیں ہو سکتیں اور ہمارے راستے آسان نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہمیں اللہ کی جانب سے توفیق نہ ملے، اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ وہ اعمال صالحہ کی توفیق ارزانی نصیب فرمانے کے ساتھ مداومت و اعمال کا حوصلہ بھی عطا فرمائے تا کہ رمضان کے بعد بھی ہماری زندگی میں روحانیت کی شمع روشن رہے اور آخرت کی زندگی میں کامیابی ہمارا مقدر بنے !

 

Note: مولانامدثراحمد قاسمی انقلاب کے مہشور کالم نگار اور ایسٹرکریسینٹ کے اسسٹینٹ ایڈیٹر ہیں