Saturday, April 20, 2024 | 1445 شوال 10
Politics

شندے حکومت پرسپریم کورٹ کا فیصلہ ایک معمہ

 وہ بھی غلط تھا یہ بھی غلط ہے، مگر حکومت تو یہی چلے گی ـ دو جملوں میں یہ ہے پورے فیصلے کا خلاصہ ! یعنی پنچوں کی بات سر آنکھوں پر مگر پرنالہ تو وہیں گرے گاـ  
 
  دراصل بی جے پی کی شہ پر شیوسینا میں بغاوت ہوئی سولہ ممبر اسمبلی الگ ہوگئے، اُس وقت کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کو اطلاع ہوئی اُنھوں نے فورا اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے کا حکم دے دیا ـ شیوینا عدالت پہونچی عدالت نے فرمایا فکر نہ کرو “ ہم بیٹھے ہیں نا “ ـ.............  اب عدالت عالیہ کا  فیصلہ آیا ہے کہ گورنر صاحب نے اسمبلی میں جو طاقت آزمائی کا حکم دیا تھا وہ غلط تھا وہ پارٹی کی اندرونی لڑائی تھی گورنر کو کسی پارٹی کے اندرونی معاملات میں دخل دینے اور ان کو اسمبلی تک لانے کا حق نہیں تھا ـ .......... سوال یہ ہے کہ جب شیوسینا اُس وقت فریاد لے کر عدالت میں پہونچی تھی تب عدالت نے گورنر کے فیصلے پر روک کیوں نہیں لگائی ؟ اب جبکہ سابقہ حکومت گرگئی نئی حکومت قائم ہوگئی تب اس فیصلے کا کیا فائدہ ؟ 
 
   اسی دوران جب اسمبلی میں فلور ٹیسٹ ہونا تھا تب اُس وقت شیوسینا کے نامزد کردہ چیف وہپ نے اپنے سارے ممبران اسمبلی کو ایوان میں حاضر رہ کر شیوسینا کے حق میں ووٹ دینے کا فرمان جاری کیا، چونکہ چیف وہپ کی حکم عدولی کرنے سے اسمبلی کی رکنیت چلی جاتی ہے اس لئے باغی گروپ اور بھاجپا نے چیف وہپ کو ہی ہٹا کر اُس جگہ اپنا بندہ بیٹھا دیا ـ شیوسینا پھر عدالت پہونچی کہ اس دھاندلی سے تو ہماری قانونی حکومت گِر جائے گی اور دوسری سرکار بننے کاراستہ ہموار ہوجائے گا ـ عدالت نے فرمایا فکر نہ کرو “  ہم بیٹھے ہیں نا “ ـ اب عدالت کا فیصلہ یہ آیا کہ سابقہ چیف وہپ کو ہٹانے کا فیصلہ بھی غلط تھا ـ اب پھر سوال یہ ہے کہ اس غلط فیصلے کو پہلے کیوں نہیں روکا گیا؟ 
 
   جب اِن دو غلط فیصلوں کی وجہ سے یہ بات طے ہوگئی کہ اب شیوسینا حکومت گرجائے گی اور بھاجپا کے ساتھ باغی حکومت بنالیں گے ، تب شیوسینا کہ وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے نے استعفیٰ دینا ہی مناسب سمجھا ـ اب عدالت علیا کا کہنا ہے کہ ادھو کو استعفیٰ نہیں دینا چاہیئے تھا بلکہ فلور ٹیسٹ کا سامنا کرنا چاہیئے تھا، اگر اُدھو استعفیٰ نہ دیتے تو ہم آج اُن کی حکومت بحال کردیتے ـ  اب عدالت علیا سے کون پوچھے کہ اگر پہلے ہی دونوں غلط فیصلہ کرنے والوں کو روک دیا جاتا تو ادھو کے استعفے کی نوبت ہی کیوں آتی ؟
 
  ایک دلچسپ چیز اور سنیے، بات شروع ہوئی تھی سولہ ممبران کی بغاوت کے بعد اُنھیں نااہل قرار دینے سے !  اب عدالت نے فرمایا کہ یہ فیصلہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے بلکہ یہ فیصلہ اسپیکر صاحب کریں گے، جبکہ اسپیکر صاحب خود متنازعہ ہیں، اگر ان ہی سے فیصلہ کرانا تھا تو شروع میں ہی بتادیتے کہ ہمارے پاس مت آئیے اسپیکر صاحب کے دربار میں جائیں ـ ...... ..... اچھا ! عدالت عالیہ یہ بھی فرماتی ہے کہ یہ متنازعہ اسپیکر اس طرح کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ ہم سے بڑی بنچ جو سات ججوں پر مشتمل ہوگی وہ کرے گی ـ یہ کیا بات ہوئی؟  .......... سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ جب ابھی یہی طے نہیں ہوا کہ اسپیکر کو یہ اختیار حاصل ہے یا نہیں تو ادھو گروپ کو وہاں جانے کے لئےکیوں کہا جارہا ہے  ؟  اسپیکر بھاجپا کے ہیں وہ اپنی پارٹی کے خلاف کیوں فیصلہ دیں گے ؟ بھاجپا کے گورنر نے بھی تو بھاجپا کے مفاد میں فیصلہ دیا تھا ـ 
  
   ہم قانون داں نہیں ہیں،تاہم ایک عام شہری ہونے کی حیثیت سے عزت ماٰب عدالت علیا سے اپنی معلومات میں اضافے کے لئےیہ سوال کرنا ضروری سمجھتے ہیں  کہ سابقہ دو غلط فیصلوں کی بنیاد پر قائم ہونے والی مہاراشٹرا کی شندے حکومت کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیوں کر صحیح ہوسکتا ہے؟............  یا تو سابق دونوں غلط فیصلوں کو صحیح مان لیجئے اگر وہ غلط ہیں تو شندے حکومت کو جاری رکھنے کا فیصلہ بھی غلط ہی کہا جائے گا  ـ
 
   اب آخری بات یہ کہ فرض کرلیجئے اسپیکر صاحب سولہ ممبران اسمبلی کو نااہل قرار دیتے ہیں یا اہل قرار دینے کی صورت میں سات ججوں کی بنچ خود اسپیکر صاحب ہی کو ایسے فیصلے کے لئے نااہل قرار دیدیتی ہے تب کیا یہ حکومت اقلیتی حکومت  نہیں کہلائے گی؟   ظاہر ہے اسمبلی میں اکثریت نہ رکھنے والی کوئی حکومت قانونی نہیں ہوسکتی؟ تو ایک غیر قانونی حکومت کے ذریعئے نافذ ہونے والے اب تک کے فیصلے برقرار رہیں گے یا منسوخ قرار دیئے جائیں گے ؟
  
  کیا ایسی متنازعہ اور مشکوک حکومت کو باقی رکھنے سے بہتر یہ نہ ہوتا کہ ایک بار پھر الیکشن کراکے عوام کی رائے لے لی جاتی ـ آخر جمہوریت میں آخری فیصلہ تو عوام ہی کا ہوتا ہے ـ.............  یقینا  “ کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی “  ............... وہ مجبوریاں قانونی تھیں یا غیر قانونی، اب ہم کیا عرض کریں ! صرف مسکرا رہے ہیں آپ بھی مسکرالیں، صحت کے لئے مفید ہوتا ہے ـ
    
      توہین عدالت کا ارادہ تو نہیں تھا 
   بے ساختہ سرکار ہنسی آگئی مجھ کو
Note: