Thursday, March 28, 2024 | 1445 رمضان 18
Politics

مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وفد کی شرد پوار سے ملاقات ـ یونیفارم سول کوڈ اور اوقاف کے معاملات پر گفتگو

 ممبئی ۱۳ مئی ـ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک وفد نے ملک کے بڑے لیڈر اور نیشنل کانگریس پارٹی کے قومی صدر مسٹر شرد پوار سے ملاقات کی اور ان سے ملی مسائل پر تفصیلی گفتگو کی گئی ـ 
 دراصل گزشتہ ۵ فروری کو لکھنو میں بورڈ کی جو عاملہ کی میٹنگ ہوئی تھی اُس میں طے ہوا تھا کہ یہ جو آج کل کچھ پارٹیاں مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی کوششیں مختلف جہات سے کررہی ہیں، کبھی عدالتوں کا سہارا لیا جارہا ہے اور کبھی مرکزی وریاستی سطح پرقانون سازی کی بات کی جارہی ہے، یونیفارم سول کوڈ کے لئے تو باقاعدہ الیکشن مینی فیسٹو میں وعدے کئے جارہے ہیں، جبکہ ہمارے ملک کا دستور ہر باشندے کو اپنے مذہب اپنی تہذیب اور زبان بولنے عمل کرنے اور بغیر کسی لالچ یا دباو کے تبلیغ کرنے کا حق دیتا ہے ـ یہی ہمارے ملک کی خصوصیت اور خوبصورتی ہے ـ کچھ لوگ اس ملک کے حُسن کو برباد کرنا چاہتے ہیں ـ 
  اسی طرح کمزور طبقات، اقلیتوں خصوصا مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات پر حملوں اور اُن پر ناجائز قبضوں کا سلسلہ بھی جاری ہے ـ اب تو کوشش یہ بھی کی جارہی ہے کہ وقف کا قانون ہی ختم کرکے ساری وقف کی زمینیں ہتھیالی جائیں ـ 
 
 ہندوستانی مسلمان ایسے ظالمانہ اقدامات جن سے اُن کی مذہبی شناخت ختم ہوسکتی ہے کی وجہ سے سخت تشویش میں مبتلاء ہیں، اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی عاملہ نے طے کیا تھا فی الحال کوئی عوامی تحریک شروع کرنے کے بجائے ملک کے وہ لیڈران اور وہ پارٹیاں جو سیکولر ہونے کی دعویدار ہیں اور مسلمانوں سے ہمدردی رکھنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں سے ملاقات کرکے اُنھیں مسلمانوں کی تشویش سے آگاہ کیا جائے اور اُنھیں اُن کی ذمہ داری بتائی جائے کہ ملک کی مشترکہ وراثت کی حفاظت کرنا جہاں ہر ہندوستانی باشندے کا فرض ہے وہیں قومی لیڈران کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے ـ
    چنانچہ اسی سلسلے میں شرد پوار سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وفد نے ملاقات کی اور اُنھیں یونیفارم سول کوڈ کی خرابیوں اور اُس کے بعد ہونے والی دشواریوں سے واقف کرایا، اراکین وفد نے مسٹر پوار کو یاد دلایا کہ یہ ملک کسی ایک مذہب، کسی ایک تہذیب کے ماننے والوں یا کسی ایک زبان کے بولنے والوں کا نہیں ہے، بلکہ یہاں تو ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے درمیان تہذیب اور آستھا کا فرق پایا جاتا ہے ، مسلمانوں کے ساتھ دوسرے مذاہب، قبائل اور آدی واسیوں کے اپنے پرسنل لاء ہیں اگر اِن سب کو ختم کرکے کسی ایک مذہب کا قانون تھوپ دیا جائے گا تو یہ ملک کی یکجہتی کے لئے انتہائی خطرناک بات ہوگی ـ  اسی طرح عبادت گاہوں پر حملہ اور اوقاف کی ملکیت میں جو بڑے پیمانے پر خرد برد ہورہا ہے وقف قانون ختم کرنے کی بات بھی ہورہی ہے یہ بھی ہمارے لئے سخت تکلیف دہ بلکہ ناقابل برداشت بات ہے ـ
 
وفد کے اراکین نے شرد پوار سے کہا کہ آپ ملک کے بڑے لیڈروں میں ہیں، آپ کی بات حکومتی ایوان میں غور سے سُنی جاتی ہے، میڈیا و عوام میں بھی آپ کے زبردست اثرات ہیں اس لئے ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ اپنے اثرورسوخ کا استعمال کریں، مسلمانوں کے خلاف ہونے والی ناانصافیوں کو بند کرانے کی کوشش کریں، خصوصا یونیفارم سول کوڈ کی خرابیوں اور اس کے نتائج سے حکومت، میڈیا اور عوام کو واقف کرائیں نیزاوقاف کی جائدادوں میں خرد برد کے خلاف بھی اپنی اثرانداز آواز کو بلند کریں تاکہ جلد از جلد یہ مسئلہ بھی حل ہوسکے ـ مسٹر پوار نے پوری گفتگو غور سے سنی اور یقین دلایا کہ یہ ملک مشرکہ مذاہب، تہذیبوں اور مختلف زبانوں کا ملک ہے یہی اس کی خوبصورتی ہے، ملک کی اس خصوصیت کی پوری حفاظت کی جائے گی ـ  اگر اس کے خلاف کوئی قانون آتا ہے تو اُس کی سخت مخالفت بھی کی جائے گی ـ 
   
 آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا وفداس سلسلے میں دوسرے بڑے لیڈران سے بھی ملاقات کرکے گا ـ اس وفد کے اراکین میں مولانا محمود احمد خاں دریابادی، ڈاکٹر ظہیر قاضی، مولانا بدرالدین اجمل، عبدالحسیب بھاٹکر، مولانا فیاض باقر، سراج الدین اجمل، ڈاکٹر سلیم خان، اور محترمہ مونسہ بشری عابدی تھے ـ

 

Note: