Thursday, May 9, 2024 | 1445 شوال 29
Opinion

ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات 
 
یمین الدین احمد
 
یہ عبدالسلام ہیں، مکہ مکرمہ میں ٹیکسی چلاتے ہیں۔ بنگلہ دیش سے تعلق ہے اور ساڑھے پانچ سال سے مکہ مکرمہ میں گاڑی چلا رہے ہیں۔ آج مکہ مکرمہ سے مدینہ روانگی تھی تو ہوٹل سے ٹرین اسٹیشن چھوڑنے کے لیے ہم ان کے ساتھ تھے۔
ہمیشہ لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے یا تو کچھ سیکھنے کو مل جاتا ہے یا کسی کو کوئی بات سمجھانے کا اللہ موقع دے دیتے ہیں۔
ٹیکسی کے کرائے سے بات شروع ہوئی کہ میٹر کے بجائے ویسے ہی ریٹ کیوں بتائے جاتے ہیں۔ عبدالسلام کا کہنا تھا کہ میٹر سے زیادہ پیسے بنیں گے لیکن چونکہ آپ اللہ کے مہمان ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ آپ کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ میرے کہنے پر اس نے میٹر بھی چلا دیا کہ میں تجربہ کرنا چاہتا تھا۔ 
اس کو میں نے کہا کہ جو پیسے طے ہوئے ہیں، میں وہی دوں گا۔ میٹر پر تقریبا" 20 ریال زیادہ بن رہے تھے۔ کمپنی کی طرف سے اجازت ہے کہ میٹر پر چلو یا ویسے ہی کرایہ طے کرلو۔ 
عبدالسلام کا کہنا تھا کہ ہر مہینے 5000 ریال کمپنی لیتی ہے، ویزا کے پیسے الگ دینے ہوتے ہیں، پیٹرول جو کہ اب کافی مہنگا ہوچکا ہے، اس کا خرچہ الگ ہے، اگر کسی وجہ سے ٹریفک چالان آجائے تو وہ بھی بھرنا پڑتا ہے۔ 
سب کچھ کرنے کے بعد دو سے تین ہزار ریال بچ جاتے ہیں۔ رمضان اور حج کے علاوہ سیزن میں 1500 ریال تک بچت ہوجاتی ہے۔
ان پیسوں میں رہائش اور کھانے پینے کا خرچ بھی کرنا ہے اور بنگلہ دیش گھر بھی پیسے بھیجنے ہوتے ہیں۔ 
گھر میں والدین کو بھی پیسے چاہئیں، بیوی اور بچے کا خرچ بھی ہے، بہن کہتی ہے مجھے بھی کچھ دو، بہنوئی کہتا ہے میرے لیے بھی بھیجو ورنہ بہن کو مار پڑتی ہے۔
میں اپنے لیے مہینے کے 500 ریال رکھتا ہوں اور باقی سارے بھیج دیتا ہوں۔ بنگلہ دیش میں سب کو لگتا ہے کہ میں یہاں عیاشی کر رہا ہوں اورشاید سعودی عرب میں پیسے کمانا بہت آسان ہے۔
میں ہفتے کے سات دن کام کرتا ہوں، کوئی چھٹی نہیں کرتا، میری نیند بھی پوری نہیں ہوتی۔ 
عبدالسلام اپنی کہانی سناتے ہوئے رو پڑا کہ ہمارے اندر کا جو دکھ ہے، وہ کسی کو کیا پتا! یہاں کوئی مسافر بات نہیں کرتا، آپ نے سلام کیا، بات کی، خیریت پوچھی تو اتنی بات آپ سے کرلی۔
شادی کے تین ماہ بعد سعودی عرب آگیا تھا اور آج ساڑھے پانچ سال ہوگئے ہیں۔ میرے بچے کی پیدائش میرے آنے کے بعد ہوئی اور میں نے آج تک اپنے بچے کو گود میں نہیں لیا۔ میں نے اس کا لمس بھی محسوس نہیں کیا۔ بس فون پر ویڈیو کال میں کبھی دیکھ لیتا ہوں۔ 
بیوی کہتی ہے کہ آپ واپس آجاو، ہم جیسے تیسے گزارہ کر لیں گے۔ لیکن وہاں بارہ چودہ گھنٹے کام کرنے کے بعد بھی دس ہزار ٹکہ سے زیادہ نہیں کما سکتا۔ کیسے گزارہ ہوگا؟ 
والدین بوڑھے ہیں۔ میں ایک بیٹا یہاں ہوں۔ ایک بھائی وہاں مزدوری کرتا ہے اور سات ہزار ٹکہ کماتا ہے۔ بہنوئی کبھی کام کرتا ہے کبھی نہیں کرتا ہے۔ میں اکیلا کمانے والا ہوں۔
اسٹیشن پر اترتے ہوئے مجھے کہنا لگا کہ آپ میرے لیے دعا کرو کہ میری زندگی آسان ہوجائے، میں اپنے بچے کو دیکھ سکوں، اس کو گود میں لے سکوں، اتنے پیسے کسی طرح جمع ہو جائیں کہ میں بنگلہ دیش جا سکوں۔
آپ تصویر میں اس کے چہرے پر غم و الم کے تاثرات دیکھ سکتے ہیں۔
اس کے بعد سے میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اللہ تعالٰی نے ہمیں کتنی نعمتوں میں رکھا ہوا ہے۔ میرے رب کی کتنی مہربانیاں ہیں جن کا شکر ادا کرنے کا حق ہم ادا نہیں کر سکتے۔
ہمیں لگتا ہے کہ ہمارا مسئلہ ہی دنیا کا سب بڑا مسئلہ ہے۔ میں جب بھی سفر کرتا ہوں اور مختلف لوگوں سے ملتا ہوں تو کہیں شکر اور کہیں صبر کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔
اللہ تعالٰی عبدالسلام کی زندگی کو آسان کردے اور اسے اس کی بیوی اور 4 سال کے بچے سے ملانے کا انتظام فرما دے۔
آپ بھی اس غریب الوطن شخص کے لیے دعا کردیں، ہوسکتا ہے آپ کہ دعا اس کے حق میں قبول ہوجائے اور وہ اپنے گھر والوں سے ملنے کے لیے بنگلہ دیش جا سکے۔
 
Note: یمین الدین احمد مکہ مکرمہ، سعودی عرب