بِہار کے بٗہار پر وار ہی وار
شاہدعادل قاسمی
گزشتہ دِنوں بہار کے دوقدیم شہروں پر بڑی تباہی اور جلتی انسانیت کی تصویر ابھر کر سامنے آئ یے،دنیا کی قدیم تعلیم گاہ سے معروف نالندہ یونیورسٹی اور بہار کے ہردل عزیز وزیر اعلی نتیش کمار کے آبائ ضلع نالندہ کوجہاں آگ کے حوالے کیا گیا وہیں ملک کے پھل اور سایہ دار درختوں اور سڑکوں کے جال بچھانے والے مشہور بادشاہ شیرشاہ سوری کے" ساسارام "کو بھی نفرتوں کے تندور میں مکمل جھونک دیا،قدیم یونیورسٹی کی لائبریری کبھی ضرور آگ کے حوالے ہوئ ہوگی مگر غلام بھارت کے دورمیں بی بی صغری کے ہاتھوں اپنے شوہر عبد العزیز کے یاد میں بنی لائبریری مدرسہ عزیزیہ بہار شریف سے ابھی بھی دھواں کا گولہ آسمان سے بات کررہا ہے،رام نومی کے موقعے سے کچھ شرپسندوں نے رمضان جیسے مقدس مہینے میں عین افطار کے وقت جو ننگاناچ اور جمہوریت کا خون کیا ہے ،اس سے ریاست ہی نہیں ملک شرم سار ہوا ہے،گوتم بدھ اور گروگوبند کی دھرتی سے آج جو پیغام نشرہوا ہے اس سے انسان ہی نہیں بل کہ انسانیت اور مانووتا شرمندہ ہے۔
گنگا جمنی تہذیب کی سب سے پاکیزہ مٹی سے آج کچھ مُٹھی بھر فسطائیوں نے جو ہنگامہ برپا کیا ہے وہ قابل گرفت ہی نہیں بل کہ لائق مذمت بھی ہے،اس حسین گلستان میں ہر دھرم اور ہر قوم کو اپنی آزدائ مذہب کے ساتھ جینے کا مکمل حق ہے،ہر ایک کی عبادت گاہ اور دھرم استھل کا اپنی جگہ مکمل احترام ہے، اس پر کسی کی انگشت نمائ قطعا برداشت نہیں کی جاسکتی ہے مگر کچھ تنگ نظر اور متشدد دہشت گردوں نے عبادت خانوں کے دیواروں اور میناروں سے جو طوفان بدتمیزی کی ہے اس سے ان کے کرتوت پر رونگٹا کھڑا ہوجاتا ہے،یہ کون سا قانون ہے،یہ کون سا سبق ہے،یہ کس اسکول کے چھاتر ہیں،یہ کس گروکل کا نصاب ہے،یہ کس ودھالیہ کا پروردہ ہے،یہ کس گھرانے کا خیال ہے،یہ کس تنظیم کی ذہنیت ہے،انھیں کس نے اتنی آزادی دے رکھی ہے،یہ کس کے شہ پہ ہورہا ہے؟ آخر یہ سب اب بہار ہی میں کیوں ہورہا ہے؟ ایسے خدشات اور وساوس سے ہر ذی شعور دماغ آج ضرور پریشان ہے،ہفتہ دس روز قبل بہار کا دربھنگہ بھی اپنے ایک علاقے کو اسی طرح مذہبی رنگ سے رنگا رکھا تھا وہ تو اس شہر کے جمہوری مزاج والوں کی فکر تھی جس پر کچھ ماحول بگڑنے سے قبل کنٹرول کرلیا گیا اور جلتے جلتے اس شہر کو بچالیا گیا،مظفر پور میں بھی امن کے دشمنوں نے شانتی کو بھنگ کرنے کی کچھ دنوں قبل ایک ناپاک کوشش کی تھی جس کووہاں کے غیور لوگوں نےناکام کیاتھا ورنہ شاید یہاں بھی کسی کا گھر جلتا تو کسی کا پریوار اجڑتا-
بہار پردنگائیوں کی گندی نگاہ بہت پینی ہے،بہار میں امن وامان اور بھائ چارگی کو مسمار کرنے کی سعی بہت گہری ہوتی جارہی ہے،بہار کی قدیم خیرسگالی پر امن مخالف طاقتوں کی آزمائش کافی تیز ہے اگر ایسے میں بہار کی موجودہ حکومت اور بہار کے سیکولرمزاج لوگ آگے نہیں آۓ تو بہار بھی جھلس سکتا ہے اور بہار کے ماتھے پر کلنک بھی لگ سکتا ہے-
بِہار کے بؑہار پر آج کل زبردست وار ہی وار ہے،بہار کے دوشہروں میں آگ ہی آگ ہے،بہار کے دو شہر پر آج پولیس ہی پولیس ہے،بہار کے دو شہروں سے انسانوں کو گھروں میں قید کردیا گیا ہے،بہار کے دوشہروں کی جانیں محفوظ ہیں اور نہ دکانیں،بہار کے دوشہروں کے لوگ خائف اور خوف زدہ ہیں مگر افسوس ان سیاست دانوں پر جو جلے پر بھی سیاست سے باز نہیں آرہے ہیں،گدی پر بیٹھے لوگ گدی سے دور والوں پر تیر چلارہے ہیں تو حزب مخالف کے لوگ ستا دھاری کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں،متاثرہ شہر میں آج بھی ملک کے عظیم منصب پر فائز وزیر داخلہ کی آمد ہوئ ہےمگر متاثرین کی حمایت میں کچھ مفید اسکیم کی سرد مہری پر بھی مایوسی ہی ہاتھ لگی ہے، ادھر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے مسیحا کہلانے اوربتانے والے مذکورہ صوبہ کے نائب وزیراعلٰی کی خموشی بھی کافی چِنتاجنک ہے-
اس بربریت اور انسانیت سوز حملے سے مسلمان ڈرا سہما ہی نہیں بل کہ عدل وانصاف سے مایوس تک نظر آرہا ہے،محافظ ہی جب لٹیرا اور خاطی بن جاۓ تو بھلا ڈر کسے نہیں ہوگا،حفاظتی دستہ ہی جب کسی ظالم کا معاون بن جاۓ تو بھلا خوف کس کو نہیں ستاۓ گا؟ آستھا جلوس اور شوبھا یاترامیں جب ننگا ہتھیار اور کھلا طمنچہ لہرایا جاۓ تو بھلا کون الامان اور الحفیظ نہیں پڑھے گا؟ سب کچھ لٹنے اور برباد ہونے کے بعد آج انتظامیہ ضرور مستعد اور چست چالاک ہے،بگڑےحالات پر ضرور مکمل گرفت کا دعوی ہے مگر ماحول بگڑنے سے پہلے ان کی ساری تیاریاں کہاں اورکس تہہ خانے میں قید ہوجاتی ہیں؟ واردات وقوع ہونے سے قبل ان کی خفیہ ایجنسیاں کہاں سو جاتی ہیں؟آگ لگنے سے قبل ان کی ساری حفاظتی تدبیریں کس دفتر میں سمجھوتہ کرنے چلی جاتی ہیں؟جھڑپ اور جھلس کے وقت ان کی دفاعی طاقتیں کہاں گروی رکھی دی جاتی ہیں؟ یقینا یہ سب کڑوا سوالات ہیں مگریہ سچ اور حق بھی ہے کہ یہی نظام اور پاور عین موقعے سے یا تو خود خائف ہوجاتا ہے یا جانب دار ہوکر فسطائ طاقتوں کے ہاتھوں کھلونااور سہارا بن جاتاہے،جس سے شہر بھی جلتا ہے اور شہریت بھی جلتی ہے،
حکومت بہارکوآج بھی دنیا انصاف پسند اورعدل پرورمانتی ہے اِن کو چاہیئے کہ امن کے ایک ایک دشمن کو کٹہرے پر کھڑا کرے اور سخت سے سخت سزا دے،مجرم کو کیفر کردار تک پہونچاۓ،جو خاطی اور گنہ گار ہے انھیں کڑی سے کی سزا دے تاکہ آئندہ کوئ اس طرح کی انسانیت سوزحرکت کرنے سےقبل سوبار سوچے،حکومت کے لیے یہ بھی ضروری ہے وہ اپنے ماتحت آفیسران اور پولیس انتظامیہ پر بھی گہری نظر رکھے، تنگ نظر، متعصب،قانون شکن،آئین مخالف اور ملک مخالف افکار کے متحمل ذمہ داروں پر بھی کڑی نگاہ اورسخت ایکشن لے،انھیں پابند اصول و ضوابط بناۓ،جبھی یہ ریاست اپنی قدیم تہذیب وثقافت کو زندہ رکھ سکتی ہے۔
Note: مضمون نگار اسلامی اسکالر اور مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ،ارریہ کے پرنسپل ہیں۔