۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج آفتاب ٹوٹا
شاہدعادل قاسمی
پرنسپل یتیم خانہ ارریہ
بیسویں صدی کاآخری دن اورماہ رمضان کاپاکیزہ سیزن تھا،برکت،بخشش،عفو وکرم اور نزول باراں رحمت کا موسم بھی جواں تھا،عالم اسلام کی ایک معززاور نابغۂ روزگار شخصیت عالم اسلام کے لیے مشعل راہ تھی، اچانک اس نورانی چراغ کے گل ہونے پر اس وقت ملک وملت نے اپنی یتیمی کا شکوہ برملا کیا تھا،ہند ہی نہیں بل کہ عالم اسلام کا باشعور طبقہ اپنی آنکھوں کے کونے کو بھگو کر اپنی محبت وعقیدت کے اشکوں سے اپنے رخسار پر غم کے لکیروں کوبڑی بے ترتیبی سے کھینچا تھا،ایک عالم گیر شخصیت کی فنا پر ملک میں ہر طبقے کے لوگوں نے ایک بے چینی اور اضطرابی کیفیت کو محسوس کیا تھا،تین سو سال سے جس خاندان کی روحانی،عرفانی اور فکری انسلاک وانضباط اورارتباط وانتساب حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہم اللہ کے خانوادۂ عالی سے رہی ہو، بھلا اس خاندان کی عظمت اور اقبالیت پر کسی کو کیا کہنے کی سکت ہوسکتی ہے،علامہ اقبال نے شاید ایسے گھرانے اور خاندان کے لیےہی کہا ہوگا
جس گھر کا مگر چراغ ہے تو
ہے اس کا مذاق عارفانہ
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ کی رحلت پر ہماری آنکھیں کم سنی کی باعث کم روئ تھیں،ہمارا شعور کم فہمی کی وجہ سے کم مضمحل ہوا تھا مگر آج حال دل اور اشک غم کافی پُرشباب ہیں،علی میاں ندوی جن کے انتساب پر ملک وملت کو ناز ہے،انھیں کے دامن عاطفت اور آغوش تربیت میں رہ کر اپنی ذہنی اور علمی نشو ونما کو ایسی تابندگی بخشی جس پر آج دنیا رشک کناں ہے،مشیت ایزدی کا نرالا انداز ہے ،دونوں پیرومرشد کی اس ہجوم دنیا سے رخصت بھی بابرکت اورمقدس گھڑی میں ہورہی ہے،۲۱واں رمضان ہے، اپریل کی 13 تاریخ ہے،جمعرات کا دن ہے،دوپہر کا وقت ہے، ایشیاء کے اکثر ویشتر حصوں میں افطار تیاری اور عید تیاری کی گلی کوچوں اور بازاروں میں ایک لمبی بھیڑ ہے،اچانک سے سبھی کانوں اور آنکھوں میں ایک اندوہ ناک خبر دوڑ جاتی ہے،ایک دوسرے کو ٹکٹکی باندھے نگاہوں سے دیکھاجاتا ہے اور زبان حال پر اناللہ وانا الیہ راجعون کاورد شروع ہوجاتا ہے
تیرۂ و تار تھی پہلے ہی یہاں شامِ حیات
دامن چرخ سے اک اور ستارہ ٹوٹا
یکم اکتوبر 1929کو راۓ بریلی کے تکیہ کلاں میں ایک بچے کی ولادت ایک علمی اور روحانی گھرانے میں ہوتی ہے،رسم بسم اللہ خاندانی مکتب سے ہوتا ہوا ایشاء کی عظیم اسلامی یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند سے مظاہر علوم سہارنپور پور کے راستے 1948میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ پر اختتام پذیر ہوجاتی ہے،حجاز مقدس اور عرب میں علمی تشنگی کو بجھایا جاتا ہے ،پھر مادرعلمی ندوہ سے مربوط ہوجاتے ہیں، معاون مدرس کی زندگی آج نظامت پر داعئ اجل کو لبیک کہ بیٹھتی ہے اور ہم دھیمی زبان مدھم الفاظ اور بے ترتیب سانس سے اتنا ہی بول پاتے ہیں کہ
زمیں کھا گئ آسماں کیسے کیسے
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈکے چوتھے صدر،اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا،اتر پردیش تعلیمی کونسل اور تحریک پیام انسانیت کے سرپرست،رابطہ ادب اسلامی ریاض کے نائب صدر،رابطہ عالم اسلامی کےرکن تاسیسی،دارالعلوم دیوبند کے رکن رکیں،دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم اور دیگر ان گنت اداروں کے سربراہان مفکر اسلام ،مرشد الامت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی کے ارتحال سے سبھی لوگ سوگوار ہیں،حیات مستعار کی ترانوے بہاروں پر آنکھیں ہمیشہ ہمیش کے لیے موندھنے سے قبل آپ کی ہمہ جہت شخصیت کے گوناں گوں خدمات جلیلہ کے احاطے کے لیےیہ چند صفحات کافی کم ہیں،آپ نے خود نوشت تحریر سے” اوراق زندگی” کو خود ضخامت کے ساتھ ترتیب دی ہے، مطالعے سے آپ کی آپ بیتی کی تصویر نہایت خوب صورت شکل میں ابھر کر منصۂ شہود پر آتی ہے،آپ کی شخصیت کو تراشنے میں والدین کے بہ جاۓ آپ کے ماموں بالخصوص چھوٹے ماموں علی میاں ندوی کا کلیدی رول رہا ہے،بڑے ماموں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے سابق ناظم ڈاکٹر سید عبد العلی حسنی ندوی رحمہ اللہ کی صاحب زادی ضرور آپ کی منکوحہ بنی ،لیکن چھوٹے ماموں حضرت علی میاں ندوی کی مکمل توجہ آپ پر مرکوز رہی، جس سانچے میں ڈھل کر آپ نے اپنے آپ کو نیابت وخلافت کا بہترین عملی نمونہ بناکر دنیا کے سامنےپیش کیا،محنت وریاضت کے ساتھ ساتھ توفیق الہی نے یاوری کی،سعادت واطاعت کی معیت میں شدید آزمائشوں اور ذہنی کش مکشوں کو کبھی اپنی مشن میں حائل نہیں ہونے دیا، بل کہ فرحت وانبساط،مسرت وبشاشت،حلاوت لذت،شوق انگیزی اور ہر خیر کے پہلوؤں کی رعایت کرتے ہوۓ آپ نے کامیابی سے اپنے آپ کو ہم کنار کیا*،مالایدرک کلہ ولایترک کلہ *کے فارمولے پر عملی طور پر آپ ثابت قدم رہے،بارگاہ ایزدی میں سر بہ سجود ہوکر آپ قلب وقلم کے سہارےاظہار حمد وشکر میں ہمہ وقت رطب اللسان رہے،وقت کےداعی،مصلح،مرشد،مفکر،مدبر،منتظم،مجتہد،منصف،مصنف،صاحب ذوق،صاحب نظر،صاحب فضل وکمال اور اصابت راۓ کے متحمل ریے،متشکک اور متردد طبعیتوں سے شکوک وشبہات کو ختم کرنے کی صلاحیت بہ درجہ اتم آپ میں موجود تھی،ملت اسلامیہ کی متفقہ تنظیم” آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ "ہے،فقیہ الامت حضرت مولاناقاضی محمد مجاہدالاسلام قاسمی رحمتہ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد۲۲/جون ۲۰۰۲ء میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا آپ کو چوتھا صدر "حیدرآباد” کی مجلس میں منتخب کیا گیا،آپ نے اپنی قائدانہ صلاحیت سے قابل قدر آب یاری کی ہے،اپنی ہمہ گیر وسعت فکر کے باعث مقبول عام وخاص ریے،مسلکی اور مشربی اختلافات اور تنازعات سے آپ نے تباین کا رشتہ رکھا، اختلاف آراء کے مابین راہ صواب نکال کر،اختلاف وانتشار کو پش پشت ڈال کر اتحادویگانگت کی دیپ جلاکر آپ نے اپنے آپ کو مینارۂ نور ثابت کیا ہے اور اپنی پرورش وپرداخت کاجیتاجاگتاحسین ثبوت عام کیا ہے،جس تناظر میں بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ حقیقتا آپ اپنے ماموں علی میاں ندوی کے "سرلابیہ "تھے_
آپ کی سنجیدہ کوششیں اور زندگی کی توانائیاں پر آشوب دور میں سرمایۂ ملت کی اچھی نگہبانی اور رہ نمائ کی ہیں،آپ کی سادگی،منکسر المزاجی،بے نفسى،وسیع نظری،بالغ فکری اور دوراندیشی سے ملت اسلامیہ نے کافی استفادہ کیا ہے،جہاں تدریسی،انتظامی اور تنظیمی ذمہ داریاں آپ کے مضبوط کندھوں پر رہی ہیں وہیں زبان وقلم،اوراق وصفحات اور مائک واسٹیج سے بھی خوب سے جوب تر خدمات انجام دیئے گئے ہیں،اردواورعربی کی تقریبا تیس تصنیفات،جرائد ورسائل میں ان گنت علمی، تحقیقی اور تخلیقی مقالات سے دنیا کو سیراب کئے ہیں'منثورات' اور'معلم الانشاء' جیسی عظیم کتابیں آج بھی بڑے بڑے اداروں کے نصاب میں شامل ہیں،تعمیر حیات،البعث الاسلامی،الرائد اور کارواں ادب سے آج بھی لاکھوں تشنگان اپنی علمی پیاس بجھاریے ہیں،آپ کی اردواور عربی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں "انڈین کونسل اترپردیش”کی طرف سے اعزاز بخشا گیا وہیں ۱۹۷۰ءمیں ہی صدر جمہوریہ کے ہاتھوں ایوارڈ صدر جمہوریہ سے بھی نوازا گیا ہے،۱۹۴۹ءمیں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے معاون مدرس ۱۹۵۵ءشعبۂ عربی کے صدر،۱۹۷۰ءمیں کلیۃ اللغۃ العربیہ کے عمید محترم،۱۹۹۳ءمیں نائب مہتمم،۱۹۹۹ءمیں نائب ناظم ۲۰۰۰ءمیں علی میاں ندوی کے انتقال کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ناظم بناۓ گئے،جس پر تاحیات برقرار رہے،وہبی صلاحیت اور فکری تربیت سے آپ کی ذات جامعیت ووسعت کےہر پہلو پر محیط ہے،زمانے کے نشیب وفراز اور حالات کے تقاضےکے ہم آہنگی سےآپ کی شخصیت معمور ہے،امام محمد علیہ الرحمہ کے قول من لایعرف اھل زمانہ فہو جاھلپرآپ کی نگاہیں اور عملی نمونے کماحقہ شاہد عدل ہیں،
کثیر ملکی وبیرونی اسفار، عرب،یوروپی اورافریقی ممالک کا دورہ، کمزور صحت،تنظیمی،تحریکی،انتظامی اور دیگر مصروفیات کے باوجود اعلاۓ کلمۃ اللہ کی کوششیں،مردہ سنتوں کی احیاء،ثابت شریعت،اماتت بدعت،دعوت فکروآگہی اور تزکیۂ نفس کے لیے بیعت وارشاد کی مجلسیں بھی لگتی رہیں،آدم گری،مردم سازی،رجال سازی اور مردان کار کا کھیپ بھی تیار ہوتا رہا،غور طلب اور مقتضائےحال کے مطابق افراد تیار ہوتے رہے، جس سے تجدیدی اور اصلاحی فیکٹریاں وقوع پذیر ہوتی رہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ آج مرجع خلائق بنے ہوۓ ہیں اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے موجودہ مہتمم حضرت مولانا محمد سعید الرحمان اعظمی حفظہ اللہ،پیام انسانیت کے روح رواں حضرت مولانا سیدبلال عبد الحئ حسنی ندوی حفظہ اللہ جیسے ہزاروں علماءۓ کبار آپ سے شرف تلمذ اختیار کئے ہوۓ ہیں
جہانے رادگرگوں کردیک مرد خود آگاہی
اسلام کے احیاء اور مسلمانوں کے وجودوتشخص کے استحکام کی جدوجہد کرنے والی عظیم ذات تھی آپ کی،اللہ کی جاری سنت اور مشیت پر عامل بن کراسلامی اقدارکے احیاء کی فکر آپ کی رگ رگ میں پیوست تھی
اولئک آبائ فجئنی بمثلہم
اذاجتمعنا یاجریر المجامع
اس عظیم خسارے سے جہاں عالم اسلام غم زدہ اور افسردہ ہے وہیں میری دلی کیفیت بھی آج کافی نڈھال اور بے بس ہے،گناہ گار آنکھوں اورناپاک ہتھیلیںوں سے کئ بار جسم کو غسل پاک کا تحفہ ملا ہے،ابھی اکتوبر ۲۰۲۲ء کے موقعے سے اپنے ننھے منھے کے سروں پر دست شفقت اور دعاؤں کی ڈالی سے سرفرازی بھی میسرہوئ تھی،خوردنوازی کا آنکھوں دیکھا حال کے لیے مستقل دفتر کی ضرورت ہے،شرح وبسط تو دور ہم اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی پر بھی آج شکوہ کناں ہیں وان لفراقک لمحزنون
سینے کی جکڑن،سانسوں کی دشواریاں،راۓ بریلی سے لکھنؤ پھر لکھنؤ ہی کے ہسپتال میں جاں جان آفریں کے حوالے اللہ اکبر کبیرا کہنا پڑا،خبر کی غلط پر ڈٹا رہا،آنافانا فیصلے پر اٹکلوں کا بازار بھی سجا، لیکن وہ سب بے ثبات اور ناپائیدار ٹھہرا،جلد ہی کل من علیھا فان پر اعتقاد بہ حال ہوا اور کل نفس ذائقۃ الموت کی صداقت پر ایمان تازہ ہوا،خبر سے بجلی گری انسان سسک سسک اور بلک بلک کر اپنے غم کو ہلکا کرنے کی سعی میں اور مجھے یہ گنگنانا پڑ رہا ہے کہ
ستارے تو روزٹوٹ کر گرتے ہیں
غضب ہوا آج تو آفتاب ٹوٹا ہے
Note: شاہدعادل قاسمی یتیم خانہ ارریہ کے پرنسپل ہیں